آج دنیا بھر میں، جہاں جہاں پاکستانی اور کشمیری رہتے ہیں، یوم یکجہتی کشمیر منایا جارہا ہے۔ 5فروری کو پوری پاکستان قوم کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف کشمیری بھائیوں اور بہنوں سے اظہار یکجہتی کے لیے یہ دن مناتی ہے۔ اس کی تجویز 1990ء میں جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد مرحوم کی جانب سے دی گئی تھی۔اس وقت پنجاب میں آئی جے آئی کی حکومت تھی، نواز شریف اس کے سربراہ تھے، اور پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی۔ قاضی حسین احمد ان کے کولیشن پارٹنر تھے۔ مرکز میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ پنجاب حکومت کی پیش قدمی پر وفاقی حکومت کو بھی اس دن کو اپنانا پڑا، اور یوں یہ ایک قومی تہوار کے طور پر منایا گیا۔ اس کے بعد سے ہر سال اہل پاکستان اور اہل کشمیر یہ دن مناتے اور ایک دوسرے کے شا نہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ دن سرکاری طور پر منایا جاتا اور کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ 29 برس سے یہ دن منایا جارہا ہے لیکن کشمیریوں کے حالات میں بہتری نہیں آئی، یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس عرصے کے دوران بھارتی مظالم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ نریندر مودی نے دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد تو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو حاصل خود مختاری تک ختم کردی، بھارت کے شہریوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں تھا۔ لیکن اب بھارتی شہری وہاں پراپرٹی خرید سکتے ہیں۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بھارت نے کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل والا راستہ اپنایا ہے کہ اپنے شہری لاکر کشمیر میں آباد کر دیئے جائیں تاکہ آبادی کا تناسب بدلا جا سکے۔کئی بین الاقوامی تجزیہ کار یہ دور کی کوڑی بھی لا رہے ہیں کہ بھارت سرکار اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر کشمیر میں رائے شماری پر آمادگی بھی ظاہر کرسکتی ہے کیونکہ پھر کوئی مخالف نتیجہ آنے کی توقع نہ ہوگی لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے، اس کے لیے جو پاپڑ بیلنا پڑیں گے وہ بھارتی قابضین کے بس میں نہیں ہوں گے۔
یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود کشمیریوں کا حوصلہ ٹوٹنے نہیں پایا۔ ان کا عزم مزید پختہ ہوا ہے۔ ہر قسم کے مظالم ڈھائے گئے، ہزاروں جوان شہید ہوئے عزتیں لوٹ لی گئیں لیکن پھر بھی جذبہ خود ارادی مدہم نہیں پڑسکا۔ بھارت نے کاغذوں میں تو کشمیریوں کے حقوق غصب کرلیے لیکن عملی طور پر کشمیر میں 6 ماہ سے کرفیو نافذ ہے۔ کئی ماہ موبائل سگنلز مکمل طور پر بند رکھنے کے بعد کچھ علاقوں میں جزوی طور پر بحال کرنا پڑے ہیں، 6 ماہ گزرنے کے بعد آج بھی بھارتی فوج کوئی سڑک خالی کرتی ہے تو آناً فاناً ہزاروں کشمیری مظاہرین وہاں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ غرضیکہ دنیا سے کشمیر کے تمام رابطے کاٹنے، گلی گلی میں فوج تعینات کرنے کے باوجود اہل کشمیر بھارتیوں کے قابو میں نہیں آرہے۔
کشمیریوں کا یہی عزم اور یہی جذبہ یوم یکجہتی کشمیر پر تنقید کرنے والوں کا بہترین جواب ہے۔اہل پاکستان کا اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی بھی عزم و ہمت کی منفرد کہانی سناتا ہے۔ یہ کشمیریوں کے لیے پیغام ہے کہ ہم انہیں بھولے ہیں، نہ بھولیں گے، آج بھی ہر پاکستانی کشمیرکا دکھ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے،پاکستان نے ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے اور لڑرہا ہے۔ چند روز قبل ہی بھارتی مخالفت کے باوجود اقدام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھارت اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرورز مشن کے لیے فنڈنگ کی منظوری دی۔ بھارت کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح اس مشن کا بوریا بستر گول کردیا جائے تاہم اس کی شنوائی نہیں ہوسکی۔ اسی طرح یورپی یونین اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھی مسئلہ کشمیر پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ دنیا پر واضح ہورہا ہے کہ مسئلہ کشمیر تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے،اور یہی وجہ ہے کہ دھیرے دھیرے دنیا اس طرف متوجہ ہورہی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کیا جارہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل دنیا کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حالیہ ملاقات میں بھی اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن یہ تمام تفصیل اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سری نگر اسلام آباد کی طرف دیکھتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ہمیں سفارتی محاذ پر اس جنگ کو بھرپور انداز میں لڑنا ہے۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم اب ہر دیکھنے والی آنکھ پر عیاں ہیں۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائی کو اہل کشمیر کے جذبہ آزادی کو اجاگر کرنے کے لیے صرف کرنا ہوگا۔ عالمِ اسلام میں بھی، اور عالمِ اسلام کے باہر بھی۔ 5 فروری کا پیغام یہی ہے کہ عزم پختہ ہے۔ کشمیر کو آزاد کرائے بغیر، پاکستان کا حصہ بنائے بغیر ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا، جب کشمیر بنے گا پاکستان۔
0