مرزا غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ:
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
آج کل سب کو دِل ٹوٹنے کی بڑی شکایت ہے۔ اِس مرض میں آپ، میں اور باقی سب بھی مبتلا ہیں۔ وجہ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ فلاں نے پچھلے ہفتے ایسا کہا، فلاں کا میں بہت خیال رکھتی ہوں لیکن مجال ہو کہ اگلے نے جھوٹے منہ شکریہ ادا کردیا ہو، فلاں نے میرے میسج کا جواب نہیں دیا۔ لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ آپکا دل کسی اور نے نہیں بلکہ آپ نے خود ہی توڑا ہے۔ بات تھوڑی کڑوی ہے لیکن جناب ہضم تو کرنی پڑے گی۔ کیونکہ اُس دوسرے شخص سے اُمیدیں بھی تو آپ نے لگائی تھیں۔ اپنے آپ سے سوال کیجئے، کیا انسان اِس قابل ہے کہ اُس سے امیدیں وابستہ کی جائیں؟ کیوں ہم دوسرے انسان کی محبت میں اس قدر محو ہوجاتے ہیں کہ اس انسان کے بارے میں ہمارے دماغ کا ناقد حصہ برف بن جاتا ہے؟
اُمیدیں تو صرف اللّٰہ سے ہی وابستہ کی جائیں تو وہ پوری ہوتی ہیں۔ کیا آپ لوگوں کی اُمیدوں پر پورا اُترے ہیں کبھی؟ میرا یہ ماننا ہے کہ انسان اپنا سکون خود خراب کرتا ہے۔ جب آپ اِس بُلبُلے کی مانند دُنیا کو اتنی اہمیت دیتے ہیں جتنی کہ اِس کی حیثیت ہی نہیں۔ جب اپ لوگوں سے امیدیں اور دل لگانے میں اس قدر اگے نکل چکے ہوتے ہیں اور پھر اچانک ان سے وابسطہ ہماری بے پناہ امیدیں جب ٹوٹ کر بکھرتی ہیں اور ریزہ ریزہ ہوتی ہیں تو پھر ہمارا دل ٹوٹ سا جاتا ہے۔ جب آپ لوگوں کی باتوں کو دِل پر لینا شروع کر دیتے ہیں، وہ لوگ جو بس کہہ کر بھول جاتے ہیں اور آپ کو ایک مہینے بعد بھی یاد ہوتا ہے کہ فلاں نے یہ کہا تھا۔
میں یہ نہیں کہہ رہی کہ لوگ صحیح ہیں یا آپ غلط ہیں۔ میں یہ کہہ رہی ہوں کہ انسان کو انسان سمجھیں۔ اُس سے امیدیں لگانا چھوڑ دیں۔ جو باتیں اِس قابل نہیں ہیں کہ اُن کے بارے میں اتنا سوچا جائے، اُن کو نظر انداز کرنا شروع کردیں۔ اپنے دِل کو اتنا مضبوط بنائیں کہ کوئی اِس کو توڑ نہ سکے۔ اور خود کو ایسا بنائیں کہ آپ کے الفاظ دوسروں کے لیے مرہم کا کام دیں۔ انسان کے دل میں جو خلا ہے اس کو اللّٰہ کی محبت کے سوا کوئی پورا نہیں کر سکتا۔ انسان کی عادت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اس خلا کو کسی انسان کی محبت سے بھرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب ایسا نہیں ہوتا (جو کہ ہرگز نہیں ہو سکتا) تو وہ غمگین ہو جاتا ہے۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جب ہمیں پتہ ہے کہ دل کا سکون ہے ہی اللہ کی یاد میں تو ہم کیوں اسے انسانوں میں تلاش کرتے ہیں؟ آج یہ بات ضرور سوچیے گا اور پھر خود سے سوال کیجئے گا کہ میری بے سکونی کا ذمہ دار کون؟