نہ جانے ایسا کیوں ہے کہ ہر دور میں میرے کانوں میں مولانا بھاشانی کے یہ الفاظ ہمیشہ گونجتے رہتے ہیں کہ “جنرل صاحب! خود پاکستان کو دو ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں” اور میں جب بھی ملکی حالات پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے یہی لگتا ہے کہ واقعی جنرل صاحب! خود پاکستان کو دو ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں؟ آپ ناراض پشتونوں اور بلوچوں کو ہی دیکھ لیں ریاست بجائے انہیں سننے کے الٹا مقابلے بازی پر اتر آتی ہے اور پھر ہمارے سیاسی حکمران تو ایسے ہیں جنہیں اقتدار میں زہر بھی میٹھا لگتا ہے لیکن فارغ ہونے کے بعد کڑوا زہر قاتل سمجھ کر تھو تھو کرتے ہیں ۔ اب آپ موجودہ دور کے مقبول ترین سیاستدان عمران خان کو ہی دیکھ لیجئے اقتدار سے نکلنے کے بعد پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان ایک اور سابق وزیراعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو سے بے تحاشہ متاثر نظر آرہے تھے اور بھٹو کو پھانسی لگانے والوں کو میر جعفر اور میر صادق یعنی غدار قرار دیتے رہے، لیکن دوران اقتدار خان صاحب جنرل ایوب خان سے بےحد متاثر دکھائی دیتے تھے۔ اور کوئی موقع ایسا نہ چھوڑا ہوگا جہاں فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور کی مثال دیتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کا ذکر نہ کیا ہو بہرحال جیسے ہر انسان خطا کا پتلا ہے ایسے عمران خان صاحب بھی فرشتہ نہیں بلکہ انسان ہیں اور خطائیں انسانوں کی صفت ہیں لہذا مجھے امید ہے اب جس مشکل دور سے جیل کی کال کوٹھڑی میں عمران خان گزررہے ہیں وہ اس سے بہت کچھ سیکھیں گے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان پر جتنی زیادہ مشکل آتی ہے وہ اس کیلئے اتنی بڑی رحمت اور اللہ کی طرف سے اس میں انسان کیلئے بہت کچھ نشانیاں ہوتی ہیں جیسے کہ مشکل گھڑی ایک چھانہ لگادیتاہے جس میں بےوفا اور باوفابخوبی پہنچانے جاتے ہیں۔ چلو آئیں اب کچھ ماضی کی یاد تازہ کرتے ہیں،۔مجھے حیرانگی ہے کہ ایک شخص (عمران خان) دو مختلف نظریات رکھنے والے افراد (ایوب خان اور ذولفقار علی بھٹو) سے یکے بادیگر ان کا کیسے مداح ہوسکتا ہے؟ اور دوسری طرف ہمارے سارے سیاستدان اقتدار میں آتے وقت جرنیلوں کی تعریفیں جبکہ نکلنے کے بعد انہیں فورا ذولفقار علی بھٹو کی یاد کیوں ستانے لگتی ہے؟
فوجی حکمران جنرل ایوب خان وہ جنرل تھے جنہوں نے فوج کا سہارا لے کر مارشل لاء لگایا تھا کیونکہ انکا خیال تھا کہ شاید میں مارشل لاء لگا کر جنرل یحییٰ خان کیساتھ مل کر حکومت کروں گا جسکے لیئے انہوں نے یحییٰ خان کو کہا کہ تم چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہوگے۔ چونکہ یحییٰ خان ایوب خان کا بہت پسندیدہ جنرل تھا لہذا ان کو اپنی مرضی سے ترقی دے کر اُوپر لایا اور انہیں سی این سی (کمانڈر انچیف) بنادیا ۔ ان دنوں آرمی چیف کا عہدہ وجود میں نہیں آیا تھا۔ یحییٰ خان نے مارشل لاء لگنے کے بعد ایوب خان کو کہا کے سر! آپ اب فار غ ہیں اُن دنوں ایوب خان صدارتی ہاؤس میں رہائش پزیر تھا تو اُس نے جنرل یحییٰ سے کہا “مجھے صرف تین ماہ رہنے کی اجازت دی جائے؟” لیکن یحییٰ خان نے کہا نہیں سر! آپ تین دن کے اندر اندر یہ ہاوس خالی کردیں۔ جنرل ایوب خان کے ساتھ ٹھیک اسی طرح ہوا جیسے انہوں نے سکندر مرزا کے ساتھ کیا تھا۔
پیپلزپارٹی کے سینئیر رہنماء اور 1977 میں منتخب ہونے والے نوجوان ترین سینیٹر سردار سلیم سدوزئی بتاتے ہیں کہ: مارشل لاء کے شروع میں اچھے کام بھی ہوئے تھے جیسے کہ فئیر الیکشن کروائے گئے۔ مگر یہاں جنرل آغا محمدیحیٰ خان کو غلط فہمی تھی کہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں تیس سے چالیس سیٹیں لے گی اور اس وقت کی انٹلیجنس کی رپورٹیں بھی یہی تھی جس کے مطابق پیپلزپارٹی بھی زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس سیٹیں نکال پائے گی۔ لہذا باقی ساری چھوٹی جماعتوں کو ملاکر جنرل یحیٰ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گا جسمیں بزات خود صدر بن جائے گا اور ذولفقار علی بھٹو سمیت شیخ مجیب الرحمن اپوزیشن میں چلے جائیں گے۔
اس وقت کے لیگل فریم ورک کے مطابق “کوئی بھی شخص، سیاسی جماعت ملکی سالمیت کے خلاف بات نہیں کر سکتی تھی اور اگر کسی نے اس بات کی خلاف ورزی کی تو اسے الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا جائیگا “لیکن دوسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش) میں اپنی سیاسی مہم اس بنیاد پر چلا رہا تھا کے مجھے ووٹ دو میں تمہیں پاکستان سے آزادی دلوا کر دوں گا۔ کیوں کہ میں چھ نکات کی بنیاد پر ایک ایسا آئین بناؤں گا جس سے ہم خود بخود آزاد ہوجائیں گے۔ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی وہ واحد شخص تھا جو شیخ مجیب الرحمن کو چیلنج کر سکتا تھا وہ ایک دن جنرل یحییٰ خان کے پاس آیا اور طویل نشست کی جس میں انہوں شکایت کی کہ شیخ مجیب الرحمن کھلے عام چھ نکات کی بنیاد پر پاکستان مخالف تحریک چلا رہا ہے اور ملکی سالمیت کے خلاف تقریریں کر رہا ہے لہذا لیگل فریم ورک کے تحت ان پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگنی چاہئے اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم از کم جو وہ علیحدگی کی باتیں کر رہا ہے ان کو روکا جانا چاہئے۔ مولانا بھاشانی نے جنرل یحیٰ خان سے مخاطب ہوکر کہا “جنرل صاحب! آ پ کیسے اس سب کو نظر انداز کر سکتے ہیں” لیکن یحییٰ خان نے اس وقت انکی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا اور اتنا کہا کہ بعد میں دیکھ لیا جائے گا۔
یہ کہانی مولانا عبدالحمید بھاشانی نے راولپنڈی کے ایک جلسہ میں سنائی تھی جسمیں میں سردار سلیم سدوزئی بھی موجود تھے۔ تقریر کے آخر میں مولانا بھاشانی نے کہا کہ: “اسکا مطلب صاف ظاہر ہے کہ “جنرل صاحب خود پاکستان کو دو ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں”۔ لہزا مغربی پاکستان والو آپ کو میرا آخری سلام۔”
یہی وجہ تھی کہ مولانا بھاشانی نے الیکشن سے بائکاٹ کردیا تھا کیوں کہ وہ ملک کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا اور بقول ان کے “یحییٰ خان میری بات نہیں مان رہا” اس بائیکاٹ کا سارا فائدہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو ہوا اور انہوں نے 100% سیٹیں مشرقی پاکستان سے حاصل کرلیں۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ہمارے چند فوجی افسران خاص طور پر جنرل ایوب خان بھی مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ مشرقی پاکستان کے لوگ بہت زیادہ متحرک، اور سیاسی طور پر باشعور تھے جسکے سبب پاکستانی فوج لمبے عرصے تک ان پر کبھی بھی اپنی ناجائز حکمرانی نہیں کرسکتی تھی۔
جنرل ایوب خان کے اس وقت کے لاء منسٹر جسٹس محمد منیر جنہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو جائز قرار دیا تھا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مجھے کہا تھا “بنگالی آپ کے دوست ہیں لہذا تم انکو کیوں نہیں سمجھاتے کہ وہ ہماری جان چھوڑ دیں۔”
سردار سلیم کے مطابق: یہ سب کچھ فوجیوں کا کیا دھرا ہے لیکن الزام لگاتے ہیں کہ ذولفقار علی بھٹو نے کہا “ادھر تم ادھر ہم” جو سراسر من گھڑت کہانی ہے کیونکہ کہ میں خود اس وقت نشتر پارک کراچی کے اس جلسہ میں موجود تھا جب بھٹو صاحب نے جنرل یحیٰ خان سے ملنے کے بعد کہا تھا کہ: شیخ مجیب الرحمن آپ الیکشن جیتے ہو اور اکثریت میں ہو اس لئے حکومت بنانا تمہارا حق ہے اور تم ضرور حکومت بناؤلیکن اسمبلی کا جو اجلاس ہو رہا ہے وہ حکومت سازی کیلئے نہیں بلکہ آئین سازی کیلئے ہے اور آئین سازی کرنا صرف تمہارا اکیلا حق نہیں ہے کیونکہ تم ملک کے ایک حصے سے الیکشن جیتے ہو تو دوسرے حصے سے میں الیکشن جیتا ہوں لہذا آئین سازی ہمیں مل جل کر کرنی چاہئے تاکہ متفقہ آئین بنائیں پس اسی بات کا سارا جھگڑا تھا جس پر شیخ مجیب الرحمن راضی نہیں ہوپارہا تھا۔
لیکن بھٹو نے پھر بعد میں ثابت کردکھایا کہ مغربی پاکستان میں 1973 کا جو آئین وجود میں آیا اس وقت حالانکہ پیپلزپارٹی کے پاس اکثریت تھی لیکن ذولفقار علی بھٹو نے تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر مشترکہ دستور بنایا جبکہ اس دستور میں بہت ساری ایسی شقیں بھی ہیں جو ان کو ذاتی طور پر پسند نہ تھیں کیونکہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے مداح تھے اور وہ کہا کرتے تھے کہ “میں کوئی مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتا” لیکن چونکہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا ہمیشہ اثرورسوخ رہا ہے تو بھٹوصاحب بھی کچھ شقوں کو مجبورا قبول کرنے پر رضامند ہوگئے تھے مثلا ذولفقار علی بھٹو ملک کے آئین میں نام “عوامی جمہوریہ پا کستان” لکھناچاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مذہب کو ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہئے مگر انکومجبوراًمذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آ کر نام “اسلامی جمہوریہ پاکستان” قبول کرنا پڑا تھا۔ بھٹو صاحب نے ملک کے مفاد میں ذاتی پسند نا پسند کو ایک طرف رکھ کر سب جماعتوں کو ساتھ ملا کر دستور بنایا جسکی سبھی نے حمایت کی تھی اور کوئی ایک بندہ یا جماعت ایسی نہیں تھی جس نے اس متفقہ آئین کی مخالفت کی ہو اور درحقیقت یہ ذوالفقار علی بھٹو کی بہت بڑی کامیابی تھی جسے ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔”
یہ اور اس سمیت بہت ساری ایسی وجوہات ہیں جس کے سبب ذولفقار علی بھٹو پاکستان کے موجودہ سیاستدانوں کو گاہے بگاہے یاد آتے رہتے ہیں۔ جب سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے حکومت سے نکال دیا گیا تو وہ بھٹو کے مداح بن گئے کیونکہ انہوں نے خود کے خلاف عدم اعتماد لانے والوں کو غیرملکی ایجنٹ اور اسے امریکہ کی سازش قرار دیا تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالا اور اُسے لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھاکہ متحدہ اپوزیشن کسی بیرونی سازش کا حصہ ہے اور وہ اس لیے حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے اور پھر اس مبینہ خط کو سازش کا ثبوت قرار دیا۔ جبکہ بعد میں پتا چلا کہ یہ خط تو دراصل ایک سفارتی مراسلہ ہے۔ جبکہ اس جلسے کے بعد عمران خان نے متعدد جگہوں پر دعویٰ کیا کہ اس مراسلے کے مطابق ایک امریکی سفارتکار نے پاکستانی سفیر سے ایک سرکاری ملاقات کے دوران مبینہ طور پر یہ کہا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیکن بعدازاں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل افتخار بابر نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے کسی غیر ملکی سازش اور اس حوالے سے ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس کی کارروائی سے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ: “فوج نے اس حوالے سے اپنا مؤقف میٹنگ میں دیا جس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں واضح ہے کہ میٹنگ میں کیا کہا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ: “اعلامیہ کے اندر بڑے واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا جسے آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا سازش کا لفظ ہے اس اعلامیے میں، میرا نہیں خیال۔” میجر جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ: خفیہ ادارے دن رات سازشوں کے خلاف کام کر رہے ہیں اور اگر کسی قسم کی پاکستان کے خلاف کوئی بھی ایسی سازش ہوئی تو انشااللہ اس کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔”
جب فوج کے ترجمان سے سوال کیا گیا کہ: اگر یہ غیر ملکی سازش نہیں تو دفتر خارجہ نے دھمکی آمیز مراسلے پر احتجاجی مراسلہ کیوں جاری کردیا؟ انہوں نے اس کا جواب دیا کہ: احتجاجی مراسلہ صرف سازش پر نہیں دیے جاتے بلکہ یہ سفارتی عمل کا حصہ ہے۔”
بظاہر پاکستان میں تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہوتا ہےلیکن فوجی ترجمان تردید کر چکے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ خیال رہے عمران خان نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں بھارتی خارجہ پالیسی کی کئی مرتبہ مختلف مواقع پر کھلے عام تعریف کی جس پر میری ذاتی رائے ہے یہ اس لئے کیا گیا کیونکہ اندرونی طور عمران خان کے فوجی قیادت کے ساتھ تعلقات خراب ہوچکے تھے اور وہ بھارتی خارجہ پالیسی کی تعریف کرکے دراصل ان سے نفرت کا اظہار کررہے تھے کیونکہ خبریں یہ بھی تھیں کہ سابق وزیراعظم نے اپنی حکومت بچانے کیلئے فوج سے مدد بھی مانگی تھی لیکن انہوں نے مسلم لیگ نواز کے شہباز شریف کو پاکستان کے وزیر اعظم کا عہدہ دے دیا اور عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں استعفے جمع کروا کر سڑکوں پر پاور شو کرنا شروع کردیا جس کا احساس انہیں شاید بعد میں ہوا تھا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ عمران خان کی حکومت گرنے کے بعد عمران خان سے اظہار یکجہتی کیلئے دس اپریل کی رات اسلام آباد میں ریلی شکل میں تحریک انصاف کے کارکنان باہر نکلے اور پاکستانی فوج کے خلاف نعرہ بازی بھی کی تھی حتکہ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید اور عمران خان کے اتحادی شیخ رشید کے لعل حویلی یعنی انکے گھر کے باہر یکجہتی کیلئے آئے نوجوانوں نے “چوکیدار چور ہے” کے نعرے بھی لگائے۔ دوسری طرف تحریک انصاف سے وابستہ سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کیخلاف مہم بھی چلائی گئی جس پر فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی نے کاروائی کرتے ہوئے متعدد افراد باہمراہ لیپ ٹاپ، موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز حراست میں لیا تھا۔ فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد عمران خان نے آہستہ آہستہ بیرونی سازش کے ساتھ ساتھ اندرونی سازش کا بیانیہ بنانا بھی شروع کردیا تھا ۔ اور کراچی کے جلسے میں ان کا کہنا تھا کہ “مجھے کہا گیا ہے کہ بیرونی اور اندرونی مافیا آپکے خلاف ہے لہذا آپکی جان کو خطرہ ہے اسی طرح تحریک انصاف کے کارکنان نے 9 مئی کردیا یا کروایا گیا اور پھر عمران خان کو جیل میں ڈال دیا گیا ۔ لہذا بھٹو کی زندگی اور موجودہ سیاستدانوں کی حالت سے یہ سبق ملتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو چاہئے کہ بار بار اپنی غلطیوں کو نہ دہرائیں بلکہ ذولفقار علی بھٹو کی طرح اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں کھیل کر عوام میں اپنا تماشہ بھی نہ بنائیں۔ اپنی زندگی میں ہی بھٹو کی طرح کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دے جائیں کہ ان کا نام ذولفقار علی بھٹو کی طرح تاریخ کے سنہرے حروف میں نام لکھا جائے ناکہ جنرل ایوب سمیت دیگر آمروں کی طرح بدترین الفاظ میں یاد رکھا جائے اور مجھے لگتا ہے کہ عمران خان اس بات کو اب جان چکے ہیں کہ اگر میں کوئی ڈیل کرکے باہر آگیا یا پھر ملک سے باہر چلا گیا تو میرا کچھ تباہ ہوجائے گا اور یقینا ً اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اگر انہوں نے بھی نواز شریف کی طرح ڈیل کرلی تو ان کا انجام بھی نواز شریف سے کم نہ ہوگا۔