0

چین کا تا ئیوان بارے امر یکی اقدامات پر شدید تشویش کااظہار

روم (مانیٹرنگ ڈیسک) چین نے کہا ہے کہ موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں چین اور امریکہ کو بات چیت اور تعاون کو مضبوط کرنا چاہئے، اختلافات سے صحیح طور پر نمٹنا چاہئے اور تنازعات اور تصادم سے گریز کرنا چاہئے، تائیوان کا معاملہ چین کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت سے جڑا ہوا ہے، تائیوان کے معاملے پر، موجودہ امریکی انتظامیہ نے ون چائنا پالیسی پر قائم رہنے اور “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہ کرنے کا عہد کیا ہے، لیکن اس کے قول و فعل میں تضاد پایا جا رہا ہے،امور تائیوان سے متعلق امریکہ کے غلط بیانیے اور اقدامات کے حالیہ سلسلے پر شدید تشویش اور سخت مخالفت کا اظہار کرتے ہیں، امریکہ تائیوان کے معاملے کی انتہائی حساسیت کو تسلیم کرے،سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ سے متعلق معاملات پر بھی چین کے ٹھوس موقف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملات چین کے بنیادی مفادات سے وابستہ ہیں اور یہ چین کے اندرونی معاملات ہیں جن میں بیرونی طاقتوں کو مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ان معاملات کی آڑ لیتے ہوئے چین کو دبانے کی کوئی بھی کوشش ناکام ہوگی۔ان خیا لا ت کا اظہار کمیو نسٹ پارٹی آ ف چا ئنا کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی بیورو کے رکن اور سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے خارجہ امور کمیشن کے دفتر کے ڈائریکٹر یانگ جئے چھی نے امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی امور جیک سلیوان کے ساتھ منگل کے روز ملاقات میں کیا۔ فریقین نے چین-امریکہ تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر واضح، گہرا اور تعمیری تبادلہ خیال کیا اور دونوں سربراہان مملکت کے درمیان طے شدہ اتفاق رائے پر مشترکہ عمل درآمد، افہام و تفہیم کو بڑھانے، اختلافات سے نمٹنے، اتفاق رائے کو وسعت دینے ، تعاون کو مضبوط بنانے اور چین امریکہ تعلقات کو صحت مند اور مستحکم ترقی کی درست راہ پر لانے کے لیے سازگار حالات کی تشکیل پر اتفاق کیا۔
یانگ جئے چھی نے کہا کہ دونوں سربراہان مملکت کے درمیان طے شدہ اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانا چین امریکہ تعلقات میں سب سے اہم کام ہے۔ صدر شی جن پھنگ نے تجویز پیش کی کہ نئے عہد میں چین اور امریکہ کے تعلقات کو باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور سودمند تعاون کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے، جس سے چین امریکہ تعلقات کی ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔ صدر بائیڈن نے مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اہم وعدے کیے جیسا کہ نئی سرد جنگ سے اجتناب، چین کے نظام کو تبدیل نہ کرنا، بلاکس کو مضبوط بنا کر چین کی مخالفت نہ کرنا، “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہ کرنا، اور چین سے محاز آرائی نہ کرنا ، شامل ہیں۔ چین نے ہمیشہ صدر شی جن پھنگ کے پیش کردہ تین اصولوں کے تناظر میں چین امریکہ تعلقات کو دیکھا ہے۔ امید ہے کہ امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کرے گا۔ موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں چین اور امریکہ کو بات چیت اور تعاون کو مضبوط کرنا چاہئے، اختلافات سے صحیح طور پر نمٹنا چاہئے اور تنازعات اور تصادم سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ چینی اور امریکی عوام کے مفادات، بین الاقوامی برادری کی توقعات اور دنیا کے لوگوں کے مفادات سے مطابقت رکھتا ہے۔
یانگ جئے چھی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تائیوان کا معاملہ چین کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت سے جڑا ہوا ہے۔ چین اور امریکہ کے تین مشترکہ بیانات میں امریکہ نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ دنیا میں ” صرف ایک چین” ہے اور ایک چین کا اصول چین اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی بنیاد ہے اور یہ چین -امریکہ تعلقات کی سیاسی بنیاد بھی ہے۔ تائیوان کے معاملے پر، موجودہ امریکی انتظامیہ نے ون چائنا پالیسی پر قائم رہنے اور “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہ کرنے کا عہد کیا ہے، لیکن اس کے قول و فعل میں تضاد پایا جا رہا ہے۔ چین امور تائیوان سے متعلق امریکہ کے غلط بیانیے اور اقدامات کے حالیہ سلسلے پر شدید تشویش اور سخت مخالفت کا اظہار کرتا ہے۔ چین زور دیتا ہے کہ امریکہ تائیوان کے معاملے کی انتہائی حساسیت کو تسلیم کرے، ایک چین کے اصول، چین اور امریکہ کے تین مشترکہ بیانات کی شقوں اور امریکہ کی جانب سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرے، اور انتہائی خطرناک رخ پر مزید آگے نہ بڑھے۔
یانگ جئے چھی نے سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ سے متعلق معاملات پر بھی چین کے ٹھوس موقف کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملات چین کے بنیادی مفادات سے وابستہ ہیں اور یہ چین کے اندرونی معاملات ہیں جن میں بیرونی طاقتوں کو مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ان معاملات کی آڑ لیتے ہوئے چین کو دبانے کی کوئی بھی کوشش ناکام ہوگی۔ یانگ جئے چھی نے نشاندہی کی کہ اختلافات سے نمٹتے ہوئے مشترکہ بنیاد کی جستجو اور اسی بنیاد پر تعاون کے ایک پل کی تعمیر ، چین اور امریکہ کے درمیان بقائے باہمی کا صحیح طریقہ ہے جسے 50 سال قبل شنگھائی اعلامیے کے بعد سے عملی طور پر آزمایا گیا ہے۔
علاوہ ازیں فریقیں نے یوکرین، شمالی کوریا کے جوہری مسئلے، ایرانی جوہری مسئلے اور افغانستان سمیت بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں