0

ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر :: تحریر: خنساء مریم

آج میں اس دور کی بات کر رہی ہوں جب انسان بے بس تھا، مجبور تھا، لاچار تھا۔ اس کی زندگی میں بے سکونی ہی بےسکونی تھی۔ ہر طرف ظلم و ستم کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ لوگ جاہلانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ بیٹیوں کوزندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ ایسے میں عرب میں قریش کے ایک معزز خاندان میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ اور اللہ تعالی نے ان کو قرآن مقدس عطا فرمایا جس کے ایک ایک لفظ میں ہدایت ہے۔یہ ایسی واحد کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے خود اٹھایا۔ اور اس میں یہ بھی فرمایا کہ” تم مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں مت پڑو ”
سب مسلمانوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گئے۔اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے فاروق اعظم 22 لاکھ مربع میل کے حکمران رہے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے حسین ابن علی ؑنے حق کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے محمد بن قاسم نے راجہ داہر کی فوج سے مقابلہ کیا اور فتح پائی۔
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
یہ پرانا منظر ہے۔ اب آج کے دور کا ملاحظہ فرمائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج مسلمان کمزور ہے۔ قرآن کو چھوڑ دیا ہے اور کفار طاقتور ہوگئے ہیں۔ آج کے مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ آج ہم نے اسلامی تعلیمات بھلا دی ہیں۔ وہ قرآن جس کے ایک ایک لفظ میں اللہ تعالی نے ہدایت رکھی ہے اور روشنی ہے۔اس کوصرف ہم گھروں میں رکھے اس کو گھروں میں سجائے بیٹھے ہیں۔آج ہم نے قرآن پاک سے صرف مرنا سیکھا ہے۔ جب ہمارے کسی بزرگ کی روح جانے لگی ہوتی ہے اس وقت قرآن اور یاسین لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔جس قرآن کا ایک ایک لفظ ہدایت ہے اس سے بھی ہم نے صرف مرنا ہی سیکھا کاش ہم اس سے جینا بھی سیکھ لیتے۔
اور ہم جاہل ملا اور صوفی کے پاس تو عمل، تعویذ وغیرہ کے لیے جاتے ہیں لیکن قرآن کو کھول کر اس کے معنی پر غور کرکے اس کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔اور یہ ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ آج ہم نے قرآن کو صرف پڑھنے کی حد تک رکھ دیا ہے اس کے معنی پر غور کرنا تو دور کی بات اور نت نئے طریقے بھی ایجاد کر دیے ہیں جن کا قرآن و سنت سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اور پھر ہم کہتے ہیں کہ ہماری طرف اللہ کی رحمت کیوں نہیں آتی ہم پر اللہ تعالی کا عذاب کیوں آتا ہے؟ بات بالآخر وہیں آ جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا اس کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے۔ ناچ گانے عام ہوتے جارہے ہیں۔ سچے اور پکے مسلمان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔
خدارا، اپنے اوپر ظلم نہ کرو ان بےحیائی کے کام کو چھوڑو اور اس جھوٹی، دھوکہ باز دنیا کو چھوڑ دو اور آخرت کی تیاری کرو اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرو انشاءاللہ کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔
اللہ تعالی ہمیں قرآن پاک کی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ الہی آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں