police torturing 0

جب وڈیروں کیخلاف بولنے پر صحافی کو پولیس نے برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا

یہ کہانی شروع ہوتی ہے 2006 سے جب بلوچستان کے سابق وزیر اعلٰی اکبر خان بگٹی کو ایک آپریشن کے ذریعے اس وقت کے آمرجنرل پرویز مشرف نے قتل کردیا تھا، یہ اکبر بگٹی کے قتل کے کچھ دن کے بعد کی بات ہے جب صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخواہ) کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تقریبا 50 کلو میٹر دور واقع گاؤں چڑا پولاد میں مقامی وڈیرے سیٹھ عبدالرحمان نے ایک نوجوان کو ان کی پسند کی جماعت کو ووٹ نہ دینے پر زمین کا تنازعہ ظاہر کرکے بھرے گاؤں میں بیچ چوراہے بس سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

اس وقت میری عمر تقریبا 10 سال تھی اور میں دو چھوٹے بھائیوں سمیت اسکول سے چھٹی کے فورا بعد والد کی پنکچر کی دوکان پر کام سیکھنے اور ابا کا ہاتھ بندھانے کیلئے موجود تھا کہ ظہر او ر عصرکے درمیان سیٹھ عبدالرحمان کوئی دس سے پندرہ لوگوں کے ساتھ جن کے ہاتھ میں ڈنڈے اور بندوقیں تھیں اچانک ہماری دوکان کی سامنے والی سڑک جو دراصل چوراہا ہے پر آگیا سیٹھ عبدالرحمان کو شدید غصے کی حالت میں گالیاں دیتے دیکھ کر اول تو ہم گھبرا گئے کہ کس کیخلاف اتنا چلا رہا کیونکہ وہ تھوڑا دور تھا اور ان کی آواز بھی صحیح سنائی نہ دے رہی تھی لیکن اتنے میں ایک بس بھی آگئی جو پہلے بھی اسی راستے سے گزرتی تھی۔

بس ڈرائیور اسلحہ اور ڈنڈوں سے لیس افراد کو دیکھ کر ڈر گیا اور بس کو بھگانے کی کوشش کی لیکن چونکہ وہاں موڑ اور کھڈے تھے تو رفتار کم ہونے کی وجہ سے وہ لوگ بس میں چڑھ گئے اور بس کو زبردستی رکوا دیا اتنے میں سیٹھ عبدالرحمان بھی بس پر چڑھا اور بالوں سے پکڑ کر ایک نوجوان جس کا نام مقبول تھا کو گھسیٹتا ہوا لاتوں اور ڈنڈوں کی برسات میں اپنی بیٹھک پر لے گیا۔

چونکہ اس صورت میں بس کی ساری سواریاں اتر چکی تھی اور گاؤں کے لوگ بھی مزکورہ نوجوان کی چیخ و پکار سن کر جمع ہوگئے تھے لیکن کسی میں یہ ہمت نہ ہوئی کہ وڈیرے کو روک لیں ۔ اتنے میں میرے والد ملک نذر اسراء پنکچر کا کام چھوڑ کر نوجوان کو تشدد سے بچانے کیلئے بھاگے تو دوکان پر موجود ایک گاہک جن کی بیل گاڑی کے ٹائر کو پنکچر لگایا جارہا تھا نے پیچھے سے پکڑ لیا اور کہا کہ “لالا نذر پاگل تو نہیں ہو تم غریب آدمی ہو ، تمہارے یہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کو دیکھو ، وہ سیٹھ آدمی ہے۔” یعنی ان کے کہنے کا مقصد تھا امیر آدمی ہے ۔ اور آپ سے طاقت میں بھی زیادہ ہے۔ لیکن میرے والد انہیں یہ کہتے ہوئے وڈیرے کی بیٹھک کی طرف بھاگے کہ ” اگر اس موقع پر آپ کا سگا بیٹا یا بھائی ہوتا تو کیا آپ یہی بیغرتی دکھاتے اگر خود نہیں آسکتے تو مجھے مت روکو ۔”

میں بھی اپنے باپ کے ساتھ بھاگ پڑا لیکن جب ہم بیٹھک کے گیٹ پر پہنچے تو دیکھا عوام کے جم غفیر میں بیٹھک کے صحن پر نوجوان کو لٹا کر تشدد کیا جارہا تھا ، میرے والد نے اونچی آواز میں کہا؛ “اے سیٹھ عبدالرحمان کچھ اللہ کا خوف کرو اور یہ ظلم بند کرو، اتنے میں وڈیرے نے اپنے لوگوں کو کہا کہ اس کو روکو اور مقبولے (مذکورہ نوجوان ) کو کمرے کے اندر لے جاؤ، وڈیرے کے کہنے سے پہلے ہی ان کے لوگوں نے میرے والد کو پکڑ رکھا تھا اور وہ ان تک نہیں پہنچنے دے رہے تھے کیوں کہ میرے والد وڈیرے کو پکڑنا چاہتے تھے تاکہ نوجوان کو ان سے چھڑوا سکیں۔ لیکن پھر کچھ دیر کی کھینچا تانی کے بعد وہ زبردستی کمرے کے دروازے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور دروازہ کو زور سے دکھا دیا تاکہ کھل جائے لیکن دروازہ اندر سے مکمل بند کرلیا گیا تھا لہذا نہ کھل سکالیکن ہم کمرے کی کھڑکی جس پر مظبوط سریا کی جالی لگی تھی سے واضح طور پر دیکھ سکتے تھے کہ ان لوگوں نے نوجوان کو چارپائی پر الٹا کرکے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھنے کے باوجود بھی پکڑا ہوا تھااور وہ وڈیرہ ناصرف گندی گندی گالیاں دے رہا تھا بلکہ انتہائی ظالمانہ طریقے سے تشدد بھی کررہا تھا۔

Tweet

میرا والد ان کی منتیں کرتا رہا مگر وڈیرے نے ایک بھی نہ سنی بلکہ الٹا یہ فرمایا کہ یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ تمہارا بھی یہی حشر کردوں گا، پھر میرے بے بس باپ نے خاموش تماشائی بنے گاؤں والوں سے کہا کہ آؤ میرے ساتھ مل کر دروازہ کو توڑیں لیکن کسی میں بھی یہ ہمت نہ ہوئی اور ظلم کو روکنے کے بجائے الٹا وہ لوگ میرے والد کو کہنے لگے کہ اس نوجوان کے ساتھ ٹھیک ہورہا ہے کیونکہ اس نے وڈیرہ کی بات نہیں مانی تھی۔ جب یہ بات پولیس تک گئی تو ہمارے گاؤں کا کوئی بھی شخص اس واقعے کی گواہی دینے کو تیار نہ تھا بلکہ الٹا سب سیٹھ عبدلرحمان کی حمایت کررہے تھے۔

آج بھی میرے کانوں میں وہ الفاظ گونجتے ہیں کہ میرا والد وڈیرے کو کہتا ہے “اور کوئی گواہی دے یا نہ دے لیکن میں علل اعلان آپ کے اس ظلم کیخلاف گواہی دوں گا ” جس کے بعد سیٹھ عبدالرحمان نے ہم پر دباؤ ڈالنے کیلئے گاؤں کے ایک اور وڈیرے حاجی نواز کھوکھر عرف نازو سیٹھ کو ہمارے گھر بھیجا، وہ علل صبح ہمارے گھر آیا اور میرے والد کو کہنے لگا ” دیکھوں میں تمہارا خیر خواہ ہوں لہذا تم سیٹھ عبدالرحمان کیخلاف یہ گواہی مت دو، کیونکہ اس کے بعد تمہارے لیئے بہت سارے مسئلے بن جائیں ، یوں وہ کئی گھنٹے میرے والد کے پاس بیٹھ کر انہیں سیٹھ عبدالرحمان کا خوف دلاتا رہا لیکن میرے والد نے ہر قسم کے ڈر سے بلاخوف ہوکر انہیں کہا کہ جو کچھ بھی ہوجائے میں اس ظلم کیخلاف گواہی دوں گا تو انہوں نے کہا اچھا پھر میری بات بھی غور سے سن لو کل کو کوئی بھی تمہارے ساتھ مسئلہ ہوگیا تو میرے پاس مت آنا، اور نہ میں آپ کی حمایت کروں گا، اس پر ابا جان نے آہ بھر کر کہا “تم بھی جاکر اسی کے ساتھ مل جاؤ اور جو کچھ کرنا ہے کرلو ہمارےلیئے ہمارا اللہ کافی ہے۔”

تشدد کا شکار بننے والے نوجوان سے پولیس نے شواہد طلب کیئے تو ان کے پاس میرے والد کی گواہی کے سوا اور کچھ نہ تھا ، مجھے اب بھی یاد ہے انہوں نے پورےگاؤں گھر گھر جاکر اس واقعے کی گواہی دینے کی منت کی مگر سیٹھ کے خلاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہ تھا لیکن جب وہ مایوس ہوکر میرے باپ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا “ملک نذر اسراء پورے گاؤں میں میرے اوپر ہوئے سرعام تشدد کی گواہی دینے کیلئے کوئی تیار نہیں مگر آپ وہ واحد بہادر شخص ہیں جو وڈیرے کیخلاف میرے ساتھ کھڑیں ہیں لہذا میں اب آپ کے پاس دوبارہ تصدیق کرنے کیلئے آیا ہوں کیونکہ میں آپ کا نام بطور گواہ لکھوا رہا ہوں لہذا کل کو ایسا نہ ہو کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں ؟” ابا نے انہیں یقین دلایا کہ میں کسی بھی قسم کے دباؤ میں نہیں آؤں گا اور جو حق کی بات ہے وہ علل اعلان کہہ چکا ہوں اور پولیس کے سامنے بھی کہوں گا۔

چند روز بعد پولیس نے بلایا تو میرے والد ہم تین بھائیوں جو اس وقت موقع پر بھی موجود تھے کو ساتھ لے کر جب پولیس دفتر پہنچا تو ایک طرف وڈیرے کے ساتھ گاؤں کے سارے بااثر لوگ تھے اور دوسری طرف مذکور ہ مدعی کے ساتھ ہم تین بھائی اور ایک گواہی دینے والا ہمارا باپ۔ پولیس آفیسر کرخت لہجے میں بولا ” اوئے نذر یہ تمہارے گاؤں والے تو کہتے مقبول اور اسکے بھائی کے درمیان جھگڑا ہوا اور اسکے علاوہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے ، اس پر ابا جان نے ہم تینوں بھائیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتے ہوئے پولیس آفیسر کو بتایا “جناب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس سیٹھ عبدالرحمان (جو اس وقت بالکل آفیسر کی سامنے والی کرسی پر بیٹھا تھا ) نے اس مقبول نامی نوجوان پر اپنے غنڈوں کے ساتھ مل کر تشدد کیا ہے۔ پولیس آفیسر نے ہم بھائیوں کی طرف دیکھتے ہوئے دریافت کیا کہ بچو تم بتاؤ تمہارا باپ سچ بول رہا ہے ؟ تو اس کے جواب میں مجھ ناچیز نے انہیں “ہاں” میں سر ہلایا۔

لیکن جب ہم تھانہ سے نکلے تو وہ وڈیرہ ہمارے پاس آیا اور دھمکی کے لہجے میں ابا جان کو کہا کہ “نذر تم نے میرے خلاف گواہی دے کر اچھا نہیں کیا، مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوگا لیکن تمہارا جو انجام ہوگا وہ لوگ دیکھیں گے” بابا نے جواب دیا “سیٹھ جب وقت آئے گا تو دیکھ لیا جائے گا میں مطمئن ہوں کوئی جھوٹی گواہی نہیں دی۔”

تاہم چند روز بعد پتا چلا کہ فریقین مابین صلح صفائی ہوگئی کیونکہ گاؤں میں اور کوئی گواہی دینے کو تو تیار نہ تھا اور وڈیرے نے جب نوجوان پر تشدد کیا تو اس کے فورا بعد اسی کے بھائی کو اپنے ساتھ ملا کر ان کے جسم پر بلیڈ سے زخم کرکے الٹا بھائی سے بھائی کے خلاف لڑائی جھگڑے کی درخواست دلوا دی تھی ۔ پھر پولیس نے بھی بجائے وڈیرے کیخلاف کاروائی کے صلح کروانے پر زور دیا۔

وڈیرے نے اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے سب سے پہلے ہماری بجلی منقطع کی کیونکہ ہماری تار ان کے محلے والے ٹرانسفارمر سے لگی ہوئی تھی پھر ہماری ایک کنال زمین پر قبضہ کرنے والوں کی حمایت کی جس کا کیس آج بھی ہم عدالت میں جیتنے کے باجود قبضہ وگزار نہ کروا سکے اور ہمارے کھیت کیلئے آنے ولا نہری پانی بھی رکوا دیا تھا کیونکہ جس ندی نالے سے ہمارے کھیتوں کو پانی لگتا تھا وہ نالا ان کی زمین سے ہوکر گزرتا تھا۔ علاوہ ازیں ہمارے پنکچر کے دوکان کے مقابلے میں اپنے ایک بندے سے پنکچر کا دوکان کھلوا لیا اور گاہکوں کو بھی ہماری دوکان پر آنے سے روکنے لگا تاکہ وہ ہمیں دبا سکے لیکن میرے والد نے بھی ہمت نہ ہاری اور پنکچر کا دوکان ہمارے حوالے کرکے خود موٹر سائکل پرگاؤں گاؤں پھیری لگا کر کباڑ ، بیٹریاں اور ٹریکٹر سے نکلنے والا کالا موبلیل لینا شروع کردیا تاکہ ہماری کفالت اور تعلیم جاری رکھ سکے۔

بچی کو ونی بننے سے کیسے بچایا؟

اس سیٹھ والے وقوعے کے کچھ عرصہ بعد ہمارے گاؤں میں ایک اور واقع رونما ہوا جس میں ایک اور وڈیرے ملک کالو خان نے غیرت کے نام پر ایک اور نوجوان جن کا نام سلیمان ہے کو رات کے اندھیرے میں پکڑ کر اپنی بیٹھک پر برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا ، جب اس بات کا مجھے علم ہوا تو میں نے حقیقت کی کھوج لگانا شروع کی تو مجھے اس وڈیرے کی برادری سے ایک شخص نے اس سارے واقعے کی تصدیق کردی جو اس میں شامل تھا اور پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ جس رات نوجوان کو پکڑا گیا اس وقت تشدد کے بعد وڈیرے نے پوری برادری کو رات گئے بلا کر ان کے والد پر دباؤ ڈال کر 20لاکھ روپے ہرجانہ اور ایک ونی ( یعنی نوجوان کی بہن کا رشتہ) کا مطالبہ نوجوان کے ورثا کے سامنے رکھا ہے۔

اب میں پریشان ہوگیا کیونکہ جس رات یہ واقع ہوا تھا اسکی اگلی رات جرگہ ہونا تھا جس میں سب کچھ طے ہونا تھا بہرحال میں نے اپنے مخبر کو کہا تم اس جرگہ میں ضرور شریک ہونا اور پھر صبح سویر مجھے آگاہ کرنا اب جب صبح ہوئی تو انہوں مجھے کہا کہ جو بات پہلے ہوئی تھی اسی کا فیصلہ ہوا ہے بس وڈیرے نے 4 لاکھ جرگہ کرنے والے دوسرے وڈیروں کو چھوڑ دیا اور اب 16لاکھ روپے ہرجانہ جس میں سے کچھ وہ نقد ادا کریں گے اور کچھ کا وقت طے ہوگا جبکہ ونی کی صورت میں نوجوان کی بہن کا وڈیرے کی مرضی کے مطابق جس سے وہ چاہے گا بھلے وہ اپنے ساتھ کرے یا کسی اور کے ساتھ نکاح بھی آج کا دن چھوڑ کر کل رات کو ہونا ہے۔ اب میں نے وڈیرہ کے محلہ میں جاکر ونی والے معاملے کیخلاف بات کرنا شروع کردی تو اتنے میں اس وڈیرے کا بھتیجا سنتا ہوا آگیا اور مجھے گالیا ں دینے لگ گیا لیکن میں نے انہیں صرف اتنا کہا کہ چچا کو جاکر بتا دو کہ یہ ظلم بند کردو اگر وہ نوجوان قصوروار ہے تو اسکی سزا ان کی بہن کو مت دو ۔

اب جب وڈیرا کو معلوم ہوا تو وہ اکیلا میرے پاس آگیا اور مجھے الگ کمرے میں لے گیا جہاں میرے ہاتھ میں پیسوں کی گڈی تھماتے ہوئے اس واقعے کی کہانی سنانے کیساتھ کہنے لگا ” دیکھوں رمضان بیٹا! آپ میرے بھتیجوں جیسے ہو لہذا اس معاملے پر ہمارے خلاف مت بولو کیونکہ یہ ہماری عزت کا معاملہ ہے ، اور ساتھ میں کہا یہ 50 ہزار روپے رکھ لو تمہاری امدا د ہے کیونکہ مجھے پتہ ہےکہ تم ایک غریب باپ کے بیٹے ہو۔ میں نے وہ پیسے ان کے جیب کے اندر واپس زبردستی ڈالتے ہوئے کہا کہ” اگر جیسا آپ کہہ رہے ہو واقعی یہ سچ ہے تو پھر قصور اس ونی بننے والی بہن کے بھائی اور آپکی بیٹی کا ہے تو آپ ان دونوں کا آپس میں نکاح کیوں نہیں کروا دیتے اور اس میں اس بچی کا کیا قصور ہے جنہیں ونی بنایا گیا۔

بہرحال وہ مجھے کافی دیر تک قائل کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا لیکن میں نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کو یاد تو ہوگا کہ جب سیٹھ عبدالرحمان نے مقبول پر تشدد کیا تھا اس وقت میرے باپ نے بھرے گاؤں میں تن تنہاء ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھی آج میں ان کا بیٹا کیسے خاموش رہ سکتا ہوں؟ آخر میں جاتے ہوئے انہوں نے کہا “بیٹا سوچ لو اور پیسے چاہئے تو بتادو وہ بھی دینے کو تیار ہوں لیکن اس معاملے پر بولنا بند کردو کیونکہ یہ ہماری عزت کا معاملہ ہے۔ میں نے کہا کہ ملک کالو خان مجھے یقینی طور پر ہر بات کا اندازہ ہے لیکن میں اب تو بالکل بھی خاموش نہیں رہوں گا کیونکہ آپ نے میرے پاس آکر اس بات کی تصدیق کردی ہے۔ اور پھر میں نے ونی کے عنوان سے یہ واقعہ مختصرا فیس بک پر تحریر کردیا ۔ جس کے دوسرے روز جس دن اس بچی کا نکاح ہونا تھا کو گاؤں میں پولیس پہنچ گئی اور انہوں نے وڈیرے سمیت ان تمام افراد کو اٹھا لیا جو اس جرگہ میں شامل تھے۔ لیکن اس واقعے کا بھی وہی انجام ہوا جیسا پہلے کا ہوا تھا کیونکہ وڈیرے ایک تو خود بھی مالی لحاظ سے طاقت ور ہوتے ہیں اور دوسرا جس سیاسی جماعت کو پوری برادریوں کے ایک ساتھ ووٹ ڈلواتے ہیں ان کے سیاسی رہنماء ان کی تھانہ کچہری میں بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ لیکن میرے آواز اٹھانے سے اتنا ضرور ہوا کہ ونی والا فیصلہ انہیں واپس لینا پڑ گیا اور جو رقم سولہ لاکھ ہرجانہ رکھی تھی وہ تیرہ لاکھ روپے کردیا گیا جسے بعدازاں خفیہ طور پر وصول کیا گیا۔

وڈیرے نے نوجوان کو جوتوں کا ہار پہنا کر گاؤں کی گلیوں کے چکر کیوں لگوائے؟

قصہ صرف یہی ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کے کچھ سال بعد اسی ہمارے گاؤں چڑا پولاد جہاں اوپر بیان کیئے گئے واقعات رونما ہوچکے میں عنایت اللہ نامی شخص پر الزام لگایا گیا کہ ان کے سیٹھ حاجی نواز جو ایک بااثر وڈیرا ہے کے ایک رشتہ دار کی بیٹی یا بیوی سے ناجائز تعلقات ہیں اب اس الزام کے بعد حاجی نواز سیٹھ اپنی پوری برادری کو اکٹھا کرکے جرگہ کے ذریعے اس نوجوان کے خلاف فیصلہ دے دیتا ہے جس کے مطابق دن کے 12 بجے تپتی دھوپ چونکہ گرمیوں کا موسم تھا اور زمین گرم تھی تو عنایت اللہ سے اول تو گندگی کے ڈھیر سے جوتے اکٹھے کروائے گئے ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ ایسا واقع رونماہوا تو میں سیدھا اس متاثرہ شخص کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ جوتے جو مجھ سے گاؤں کے مختلف گندگیوں کے ڈھیر سے اکٹھے کروائے گئے تھے کو میرے گلے میں ہار بنا کر پہنوایا گیا اور پھر میری گھر کی خواتین سمیت ہمیں ننگے سر اور پیر کڑک دھوپ میں پہلے گاؤں کی گلیوں کے چکر لگوائے گئے اور پھر اس وڈیرے کے رشتہ دار کے گھر جاکر ناک رگڑ کر معافی منگوائی گئی۔

جب میں نے عنایت اللہ سے پوچھا کہ جو الزام آپ پر لگایا گیا ہے کیا وہ واقعی سچ ہے تو انہوں نے جواب دیا نہیں بات ایسی نہیں تھی جیسی بنا دی گئی کیونکہ جن خواتین سے ناجائز تعلق کا مجھ پر الزام لگایا گیا میں ان کے گھر کے دروازے پر ان سے اپنے قرض کی رقم وصول کرنے گیا تھا جو کئی دنوں سے وہ واپس نہیں کرنا چاہ رہے تھے اب جب میں نے جاکر رقم کا تقاضہ کرتے ہوئے شور کیا تو انہوں نے رقم ہتھیانے کیلئے مجھ پر یہ الزام لگا دیا، اب چونکہ وہ لوگ وڈیرے حاجی نواز سیٹھ کے قریبی تھے تو پوری برادری اکٹھی ہوگئی مجھے قصوروار ٹہرا کر ہمیں یہ سزا دلوا دی۔

ان کی یہ کہانی سننے کے بعد میں نے فورا ایک خبر لکھی اور انگریزی اخبار کے مدیر رضا رومی صاحب کو بھیج کر کہا کہ اسے فورا ڈیلی ٹائمز کی ویب سائٹ پر شائع کریں یہ خبر جیسے ہی شائع ہوئی اور میں نے سوشل میڈیا پر شیئر کی تو اتنے میں مجھ سے ایک محکمے کے آفیشل نے رابطہ کرکے معلومات حاصل کی اور پھر چند ہی منٹوں بعد پولیس کی نفری ہماری گاؤں پہنچ گئی اور تمام افراد کو گرفتار کرلیا جنہوں نے وہ ظالمانہ فیصلہ صادر کیا تھا لیکن اب جب پولیس نے متاثرہ شخص عنایت اللہ کو بلایا تو انہوں نے وڈیرے حاجی نواز سیٹھ کے خوف سے اس واقعے کے ہونے سے بھی انکار کردیا اور پولیس کو بیان دیا کہ میرے ساتھ ایسا کسی قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، اب تمام وڈیروں نے مل کر پولیس پر ایک سیاسی جماعت سے دباؤ ڈلوایا کہ وہ مجھے گرفتار کرے کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔

خیر وڈیرا پولیس والوں کو گاؤں میں لائے اور گاؤں والوں سے بھی میرے خلاف بیانات دلوائے اور اپنی حق میں گواہی دلوائی کہ “یہ جو خبر ملک رمضان اسراء نے شائع کی وہ جھوٹی ہے اور ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ” اب جب اس واقعے کا متاثرہ شخص بھی وڈیرے کیخلاف کاروائی سے مُکر گیا تو پھر پولیس نے مجھے کہا کہ اب آپ کے خلاف کاروائی ہوگی لیکن میں نے انہیں جواب دیا میں اس متاثرہ شخص کی ویڈیو دکھا سکتا ہوں جس میں وہ اس واقعے کے بارے مجھے اپنی کہانی سنا رہے لیکن اس ویڈیو کی وجہ سے میں تو کاروائی سے بچ گیا لیکن اس واقعے میں بھی ویسا ہوا جیسا پہلے ہوتا رہا کے وڈیرے ملک حاجی نواز سیٹھ نے اس متاثرہ شخص عنایت اللہ اور ان کے خاندان پر دباؤ ڈال کر صلح نامہ کروا لیا۔

وڈیروں کیخلاف بولنے پر صحافی کو 7 تولہ سونا اور 40 تولہ چاندی کا جرمانہ ادا کرنا پڑگیا!

اب یہاں سے شروع ہوتی ہے میری اصل کہانی یہ سال 2013 تھا اور وڈیروں نے بھی ٹھان لی تھی کہ کسی نہ کسی طرح ان باپ بیٹوں کو سبق سکھانا ہے کیونکہ اس وقت ہمارےگاؤں میں، میں اور میرا والد ہی واحد ایسے بندے تھے جو ہمیشہ وڈیروں کے ظلم و جبر کیخلاف آواز بلند کرتے تھے۔ پھر وہ چاہے کسی غریب پر ظلم ہو یا زمینوں پر قبضہ ان سب ناجائز باتوں کیخلاف ہم آواز بلند کرتے تھے۔

سال 2013 نومبر کی سرد رات کو مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ صبح کا سورج میرے خاندان پر قہر بن کر ابھرے گا، صبح میری آنکھ کھلی تو مجھے رونے کی آواز سنائی دی میں فورا اٹھا تو معلوم ہوا کہ ہمارے پڑوس کے گھر میں رات کے وقت ڈکیتی ہوگئی ہے اور ان کے گھر کی خاتون امی کے پاس آکر روتے ہوئے چوری کی خبر دی رہی ہے۔ میں فورا پڑوسی کے گھر پہنچا تو مجھے ایک اور خبر سن کر جھٹکا لگا اور وہ خبر یہ تھی کہ حاجی نواز سیٹھ کے گھر میں بھی ڈکیتی ہوئی ہے اور کئی تولے سونا چور لے گئے ہیں۔ بہرحال چونکہ پڑوسیوں کے گھر صفہ ماتم تھا تو انہوں نے درخواست کی مقامی وڈیروں نے کھوجی کتوں والوں کو بلایا ہے لہذا آپ ان مہمانوں کیلئے چائے اور انڈوں کا بندوبست کریں۔ خیر ہم نے چائے وغیرہ تیار کی اور جب آنے والے مہمانوں بارے دریافت کیا تو ہمیں بتایا گیاکھوجی کتوں والی ٹیم گاؤں پہنچ گئی لیکن وہ پہلے مقامی وڈیروں کے پاس گئے ہیں وہاں سے چائے ناشتہ کرکے پھر یہاں پہنچیں گے۔

اب کچھ وقت گزرا تو ٹیم پہنچ گئی جن کے انتظار میں سارا گاؤں جمع تھا اور میری یادشت کے مطابق یہ ہمارے گاؤں کی تاریخ میں ڈکیتی اور کھوجی کتوں کے بلانے کا پہلا واقع تھا۔ آج بھی میرے کانوں میں وہ بات گونج رہی ہے کہ وڈیرہ کھوجی کتوں والوں کو کہتا ہے کہ “چور کوئی اور نہیں بلکہ آپس پاس کا بندہ ہے” لیکن اس وقت مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ یہ اشارہ میری طرف دے رہا تھا۔ کھوجی کتے چھوڑے گئے تو وہ ادھر ادھر بھاگے اور پھر ہاتھ میں رسی پکڑے شخص انہیں اپنی مخصوص زبان میں کچھ الفاظ کہتا رہا اور کتے کے گلے سے نکالی گئی رسی کو کبھی ایک ہاتھ تو کبھی دوسرے ہاتھ پکڑ کر ساتھ بھاگتا رہا، جو بالآخر جاکر میرے کمرے کی اس چارپائی پر بیٹھا جہاں میں سوتا تھااور اس کمرے پڑی بھی وہی ایک چارپائی تھی۔

اس کے بعد ایک اور کتا چھوڑا گیا اور بھی ٹھیک اسی طرح جاکر میری چارپائی پر بیٹھ گیا اب کتوں والوں کو شاباش دیتے ہوئے وڈیروں کے حامیوں نے چور چور ملک رمضان اسراء چور کے ناصرف نعرے لگائے بلکہ مجھے تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور پھر مجھے میرے والد سمیت وہ لوگ پکڑ کر وڈیرے ملک حاجی نواز سیٹھ کی بیٹھک پر لے گئے جہاں میرا والد ان کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے وڈیرے کے پاؤں پر اپنے سر کی پگڑی رکھتا اور وہ میرے والد کو گالی دیتے ہوئے لات مار کر دور پھینک دیتا یوں کئی بار ملک حاجی نواز سیٹھ نے میرے والد سے اپنے پاؤں پر ہاتھ رکھوائے اور پھر منہ اور سر پر لاتیں ماریں، ہم نے انہیں قرآن پر ہاتھ رکھ کر اعتبار دیا کہ ہم نے کوئی چوری کی نہ ہی کوئی علم لیکن انہوں نے ہماری ایک بھی نہ سنی اور مجھے میرے والد سمیت پہلے اپنی بیٹھک پر ذلیل کیا اور پھر گاؤں کی گلیوں میں گھماتے ہوئے لاتیں اور دھکے دیتے ہوئے پولیس کے سامنے گاؤں کے باہر جاکر پولیس کے حوالے کردیا۔

اس وقت میرا شناختی کارڈ بھی نہیں بنا تھا کہ پولیس مجھے اور میرے والد کو تشدد کرکے پولیس وین میں بیٹھا دیتی ہے اور پھر راستے میں کھیتوں سے کماد توڑ کر میرے والد کے سامنے مجھے اور میرے سامنے میرے والد پر ان گنوں سے تشدد کرتی ہے اور کہتے ہیں کہ تمہی تھے نا وہ بندے جو وڈیروں کیخلاف بولتے تھے۔ پولیس نے تھانہ پروآ ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کردیا اور جب سے پکڑ کر لائی تھی ہر چند منٹوں کے بعد مسلسل تشدد کا نشانہ بناتی رہی۔ ناصرف میرے کپڑے اتار کر برہنہ حالت میں مجھ پر ڈنڈے برسائے گئے جن کے نشانات آج بھی میری پیٹ پر موجود ہیں بلکہ میرے ہاتھوں اور پاؤں پر پولیس اہلکار بوٹ رکھ کر زور زور سے رگڑا لگاتے رہے، یہ تشدد کا سلسلہ صرف یہی نہیں رکتا کیونکہ اس کے بعد مجھے بجلی کے جھٹکوں کے ساتھ رات 12 بجے سرد موسم میں ایک نہر پر لے جایا گیا جہاں پولیس اہلکاروں نے مجھے ٹانگوں سے پکڑ کر الٹا کرکے پانی میں میرا سر ڈبو دیا اور یہ تشدد کا سلسلہ رات بھر چلتا رہا اور یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا رہا کہ مجھ سے زبردستی چوری قبول کروائی جائے لیکن میں نے بھی ٹھان لی تھی میں بے گناہ ہوں اور اگر دوران تشدد مر بھی گیا تو شہید ہوجاؤنگا۔

اب جب پولیس والے تشدد کر کر کے تھک جاتے تو ان کا دوسرا بندہ میرے پاس آجاتا مجھے پانی پلاتا اور کہتا بیٹا آپ نے یہ چوری کی ہے یا نہیں لیکن اب آپ قبول کرلو اور اپنے والد کا نام بھی لے لو ورنہ یہ تشدد کر کر کے آپ کو مار دیں گے اور پولیس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اس دوران مجھے وہ ایک واقعے کا بھی ذکر کرتا جس میں اسی تھانہ کی پولیس نے ایک نوجوان کو اتنا تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ جاں بحق ہوگیا تھا لیکن میں اس پولیس اہلکار کو جواب دیتا کہ چچا جی میں نے جب کوئی چوری کی نہیں تو کیوں اور کیسے قبول کرلوں؟ وہ کہتا بیٹا آپ یہ چوری تو قبول کروگے ہرصورت۔

وہ سین اب بھی مجھے یاد ہے کہ وڈیرہ حاجی نواز سیٹھ نماز عشاء کے وقت تھانہ پہنچا تو ساتھ میں ایک بکرا پکڑا ہوا تھا اور میرے سامنے محرر کے کمرہ میں پولیس والوں کو کچھ پیسے دیتے ہوئے کہا انہیں ایسا سبق سکھاو کہ دوبارہ کبھی بھی ہمارے خلاف کچھ بولنے سے یہ باپ بیٹا دس ہزار بار سوچیں، ان کے جانے کے بعد پولیس نے مزید لتر مارنا شروع کردیئے اور جب وہ تھک گئے مجھے حوالات میں بند کرکے اوپر چھت میں زنجیر سے اس طرح لٹکا کر باندھا کہ میرے پاؤں آدھے زمین پر لگ رہے تھے اور یہ سب کچھ انہوں نے اس لیئے کیا کہ ایک تو میں نیند نہ کرسکوں اور دوسرا میرے والد کو بھی ساتھ تھوڑی دور پر زنجیر سے باندھ دیا تاکہ وہ میری تکلیف دیکھے اور ٹوٹ جائے اب حالانکہ وہ اس سے پہلے بھی جتنا تشدد کرچکے میرے والد کو دکھاتے رہے لیکن میری با نسبت بابا جان پرکم تشدد کیا مگر مجھ پر ہورہا ہر ظلم وہ اسے دکھاتے رہے لیکن جب بابا نے مجھے لٹکا ہوا دیکھا اور میرے منہ سے خون آنا جاری ہوا تو وہ مجبوری کے ہاتھوں زاروقطار رونا شروع ہوگیا اور یہ وقت رات کے دو بجے کا تھا جب بابا مجھے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ دیکھ کر روئے جارہے تھے۔ واضح رہے کہ پولیس ہمیں گاؤں سے تقریبا دوپہر کے 12 بجے اٹھا کر لائی تھی اب ان 12 سے زائد گھنٹے گزر جانے کے باوجود پولیس نے ہمیں صرف پانی پلایا تھا اوروہ بھی تب پلاتے تھے جب دیکھتے تھے بندہ بے ہوش ہوگیا ہے۔

میں ساری رات برہنہ حالت میں سردی کے موسم میں شدید تکلیف میں زنجیروں سے لٹکا رہا ۔

اب میرے والد بالکل ٹوٹ چکے تھے صبح ہوئی تو وڈیرہ بھی تھانہ پہنچ گیا اور ہماری یہ حالت دیکھ کر خوب قہقے لگائے انہیں پولیس والوں نے دور لے جاکر کہا کہ ہم نے ہر حربہ استعمال کرلیا مگر ناکام ہوئے اور اب ہمیں بھی پتا چل چکا کہ یہ لوگ چور نہیں لیکن پھر بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اور آگے عدالت میں یہ معاملہ ختم ہوجائے گا کیونکہ عدالت کتوں کی گواہی تسلیم نہیں لہذا ہم آپ کے ساتھ ہیں اور انہی یہی پر دباؤ ڈال کر ان سے سونا وغیرہ وصول کرتے ہیں۔

کچھ دیر بعد وڈیرہ حاجی نواز سیٹھ ہمارے قریب آیا اور اونچی آواز میں پولیس والے کو کہا کہ آپ میرے سامنے اس رمضے (ملک رمضان اسراء) کو مزید سبق سکھائیں جس کے بعد پولیس مجھے اور میرے والد کو زنجیروں سمیت تھانہ کے حوالات سے نکال صحن میں لے آئی اور وڈیرے کو سامنےکرسی پر بٹھا گیا جبکہ میرے والد کو نیچے زمین پر ٹھنڈے فرش پر پولیس اہلکار پکڑ کر بیٹھ گیااور مجھے اس ٹھنڈے فرش پر نیم برہنہ حالت میں لٹا کر تشدد کرنا شروع کردیا اب اس دوران میرے والد نے سیٹھ کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ہم پر رحم کرو تو انہوں نے کہا آپ اس پولیس تھانہ میں جرگہ کے سامنے مجھے 7 تولہ سونا اور 40 تولہ چاندی ادا کرو جبکہ ساتھ یہ بھی زبان دو کہ دوبارہ تمہارا بیٹا اور تم ہمارے خلاف نہیں بولو گے بالآخر میرے باپ نے مجبور ہو کر انکی یہ شرط قبول کرلی اور یوں ہمیں وڈیروں کیخلاف بولنے کی سزا کے طور پر 7 تولہ سونا اور 40 تولہ چاندی بطور جرمانہ ادا کرنا پڑا۔

ہماری خود کی اتنی اسطاعت تو نہیں تھی کہ اتنا سونا چاندی برابر کرسکتے لہذا گھر کا سب کچھ بیچ کر اور کچھ رشتہ داروں سے قرض لے کر ان کا سونا چاندی پورا کیا، اس واقعے کے بعد میں کئی ماہ تک چارپائی پر پڑا رہا اور شدید تشدد کے باعث سیدھا لیٹ بھی نہیں سکتا تھا، جبکہ اس کے علاوہ ہم شدید زہنی قرب میں رہے ایک پھوپھی اس صدمہ کے باعث پاگل ہوگئ ، دادی شدید پریشانی میں اکثر روتی رہتی تھی اور بالآخر اللہ کو پیاری ہوگئی اور میرے والد بالکل ایسے ہوگئے تھے جیسے ان کے منہ میں زبان نہ ہو، یوں وہ اس قرض کیلئے بھی پریشان رہنے لگے اور پریشانی کے باعث ہارٹ اٹیک کے ساتھ ساتھ شوگر کا شکار ہوگئے۔

صرف اتنا ہی نہیں وڈیرے ملک حاجی نواز سیٹھ نے اپنی بیٹھک پر گاؤں کی برادری کو بلا کر ان سے دعا کے ذریعے حلف لیا کہ جو کوئی بھی ملک رمضان اسراء کے خاندان سے خوشی غمی رکھے گا ہم ان سے تعلق واستہ منقطہ کرلیں گے اور انہیں اپنی خوشی غمی میں اور انکی میں ہم شریک نہ ہوں گے۔ جبکہ میرے ایک رشتہ دار ملک سونا جنہوں نے ہمارے ساتھ تعلق نہیں توڑا اور وڈیرے کو انکار کیا اس کے خلاف بھی ٹھیک ہماری طرح ایک گھر میں چوری کے بعد کھوجی کتے ان کے گھر بٹھائے گئے اور انہیں پولیس سے تشدد کروا کر جرمانہ لینے کی کوشش کی گئی۔ اور ان کے خاندان کو دھمکیاں دی گئی کہ وہ وڈیرے کے محلہ کی گلیوں سے بھی نہ گزریں ورنہ مار دیا جائے گا۔

حالیہ دنوں 8 مئی 2024 الیکشن سے قبل وڈیرے ملک حاجی نواز سیٹھ نے ہم پر ایک بار پھر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ ہم لوگ ان کی پسندیدہ جماعت کو ووٹ دیں لیکن جب نے انکار کیا اور قانونی چارجوئی کا کہا تو انہوں نے اول تو ہمیں یہ لالچ دینا شروع کردیا کہ وہ جو سونا، چاندی آپ سے 2013 میں لیا تھا وہ واپس کرنے کیلئے تیار ہوں مگر آپ الیکشن میں ہمارا ساتھ دیں تاہم ہمارے انکار کے بعد ہم پر ان لوگوں سے دباؤ ڈلوانا شروع کردیا جن کے ہم قرض دار ہیں کیونکہ ہمیں پتہ کہ وہ لوگ بھی مجبور ہیں اور بیچارے ان کے علاقہ میں زمین کی کاشت کاری کرتے ہیں اور وہ ان کے ہاتھوں مجبور ہیں جب الیکشن میں وڈیرہ کی جماعت کو ووٹ دینے سے انکار کیا تو قرض دار نے ہم سے فورا قرض ادائیگی کا کہنا شروع کردیا واضح رہے کہ 2013 میں نے اس وقت سونا اور چاندی قرض پر اٹھایا اور ادائیگی کے وقت اس وقت کی موجودہ رقم یا سونا چاندی دینے کا کہا تھا اب ہم نے کچھ لوگوں تو قرض ادا کردیا لیکن ابھی کچھ کو کرنا باقی ہے۔ جس کی موجود رقم لاکھوں میں بنتی ہے جب میرے خاندان کو وڈیرے کی طرف سے مختلف موقع پر ایسے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہےتو بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ اس کہانی کی ویڈیو اپنی زبان سے ریکارڈ کرکے اپنے فیس بک پر شیڈول پوسٹ کرکے جب تک لوگ میری کہانی کو جان پائیں تب تک میں اپنی اس دکھ بھری زندگی کے غم ساتھ لیکر اگلے جہاں نکل جاؤں بہرحال میری یہ کہانی بہت لمبی ہے لیکن المختصر یہ کہ پھر خیال آتا ہے کہ میں نے وڈیرہ شاہی کیخلاف تواناآواز بننا ہے اور مجھے جیسے کئی مظلوموں کو اس ظکم سے نجات دلانی ہے لہذا میری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ ملک حاجی نواز سیٹھ جیسے ظالم وڈیروں کے خلاف کاروائی کرکے انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ کوئی دوسرا مظلوم ایسے ظالم وڈیرے کا شکا ر نہ ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں