نئی دہلی:: بھارتی سپریم کورٹ نے مسلم مخالف شہریت قانون کے خلاف مقدمے میں حکم امتناعی دینے سے انکار کر دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں بھارتی سپریم کورٹ میں مسلم مخالف شہریت قانون کے نفاذ کے خلاف دائر مقدمہ کی سماعت ہوئی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی قیادت میں 3 رکنی بنچ نے معاملے کی سماعت کے لیے ایک پانچ رکنی آئینی بنچ کی تشکیل کا اشارہ بھی دیا ہے۔
یاد رہے کہ انڈیا میں متنازع شہریت کے نئے ترمیمی قانون کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے انڈیا آنے والے غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی لیکن اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
شہریت کے متنازع ترمیمی قانون سی اے اے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ شہریت قانون کو چیلنج کرنے والی سبھی درخواستوں کی نقول انھیں موصول نہیں ہوئی ہیں، اس لیے انھیں اپنا جواب دینے کے لیے وقت دیا جائے۔
شہریت کے قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کے بنیادی اصولوں کے منافی اور غیر قانونی ہے لہذا اس کے نفاذ پر سٹے آرڈر جاری کیا جائے۔
سینئر وکیل کپل سبل نے دلیل دی تھی کہ قانون کے نفاذ سے جن باشندوں کو شہریت دی جائے گی ان کی شہریت واپس لینا مشکل ہو جائیگا، اس لیے حتمی فیصلہ آنے تک قانون کی عملدرآمد کو روکا جائے۔ تاہم عدالت نے ان کی دلیل نہ مانتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی قدم نا قابل تبدیل نہیں ہے۔
دلائل سننے کے بعد بھارتی عدالت عظمیٰ نے شہریت قانون مقدمے میں حکم امتناعی دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کا جواب سنے بغیرقانون کے نفاذ پر حکم امتناعی جاری کرنے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
سماعت کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو معاملے پر جواب جمع کرانے کیلئے مزید 4 ہفتے کی مہلت دیدی ہے۔