چار بار پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہونے والے ڈاکٹر مسرت حسین بلوچ ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کرچکے ہیں اور اس وقت ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او ڈیرہ اسماعیل خان) تعینات ہیں جبکہ ان کی ایک خوبی یہ ہے وہ 24 گھنٹے آن ڈیوٹی ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا زاتی نمبر سب اساتزہ کو دے رکھا ہے اور ان کے دفتر کے دروازے ناصرف ہر عام و خاص کیلئے کھلے رہتے ہیں بلکہ اتوار والے دن چھٹی پر بھی ان کے گھر پر لوگوں کا رش لگا رہتا ہے اور وہ ہر کسی کا جائز کام بنا کسی کے سفارش کے کرتے ہیں۔ جبکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی اچھے اخلاق کی وجہ سے وہ 5 سال سے محکمہ تعلیم ڈیرہ اسماعیل خان کے سربراہ ہیں اور یہ اس لیئے ممکن ہے کیونکہ وہ انتہائی ملنسار اور خوش اخلاق ہیں جو ہر لمحہ بلا تفریق عام خاص سے ملتے ہیں اور ناصرف ا ن کی عرضی سنتے ہیں بلکہ اسی وقت مسئلہ حل بھی کرتے ہیں۔
مزید پڑھئے ڈاکٹر مسرت حسین بلوچ کا انٹرویو جو انہوں نے روزنامہ قل کے منیجنگ ایڈیٹر ملک رمضان اسراء کو دیا ہے
پہلا سوال: سربراہی سطح کے عہدے کو پھولوں کا ہار سمجھا جاتا ہے لیکن آپ کو کب احساس ہوا کہ یہ کانٹوں کی سیج ہے؟
ڈاکٹر مسرت حسین بلوچ ایجوکیشن آفیسر کا جواب: میری کرسی انتظامی عہدہ ہے جس کے انتظامی مہارت چاہئے ہوتی ہے تاکہ اسے بہتر چلایا جاسکے مگر دور کے دیکھنے سے یہ آپ کو پھولوں کا ہار اور سیج لگے گی لیکن یہ دراصل ہمیں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ لوگ بات کو سمجھتے نہیں اور پھر قوانین کی پیروی بھی نہیں کرتے لہذا یہ کانٹوں کی ناصرف سیج بلکہ استروں کا ہار ہے۔
دوسرا سوال: آپ ایجوکیشن کی طرف کب اور کیسے آئے اور کیا آپ کیا یہ پسندیدہ شعبہ ہے اور آپ کے پاس کونسی ڈگری ہے؟
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ڈاکٹر مسرت حسین بلوچ: میرے والد ایک استاد تھے اور ان کا شوق تھا کہ میں ڈاکٹر بن جاؤں لہذا ایف ایس سی پری میڈیکل میں کیا اور میرا داخلہ ڈی وی ایم ہوگیا جس کا مجھے شوق نہیں تھا تو آگے میں نے بی ایس سی کی، جامع گومل سے ریگولر بی ایڈ اور ایم ایڈ کیا جس کے بعد میرے بطور سی ٹی استاد آرڈر ہوگئے یوں تعلیم کے ساتھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں حصہ بھی لیتا رہا اور اللہ کے فضل سے چار بار پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہوا ہوں اور پھر ایم فل ایجوکیشن کے بعد اب الحمدللہ ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی بھی کرچکا ہوں۔
تیسرا سوال: آپ پر الزام ہے کہ پیسے لے کر نوکریاں بیچ رہے ہیں کیا یہ واقعی سچ ہے یا پھر افواہ؟
مسرت حسین بلوچ: ہر وہ بندہ جس کی کوئی میرے عہدے سے امید وابستہ ہو یا کام ہو وہ توقع رکھتا ہے کہ ڈاکٹر مسرت حسین بلوچ کو پیسے دے کر خرید لیں یا اپنا ناجائز اور قوانین سے متضاد کام کروا لیں یا ہار کسی سفارش پر کام ہوجائے اور پھرجب ان کی ناجائز امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں کیونکہ میں صافصاف کہہ دیتا ہوں کہ جو بھی کام ہے رولز کے مطابق ہوگا تو پھر وہ باہرجاکر بے بنیاد الزام تراشیاں کرنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن میں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میرے اس عہدے سے پہلے کی میری پوری فیملی ایجوکیشن میں ہے میرے والد مرحوم بھی ایک استاد تھے اور اب میری بیوی سمیت قریبی لوگ بھی اسی شعبہ سے وابستہ ہیں اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ آج تک میرے خاندان کے لوگوں میں سے کسی نے کبھی اپنی ڈیوٹی سے روگردانی نہیں کی ہے اور میں تو 2019 میں اس عہدے پر آیا ہوں آپ جائیں چیک کرلیں 2014 سے آج تک کوئی بھی فرد مانیٹرنگ میں غیرحاضر نہیں ہوا ہے۔ جبکہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آج تک مجھ پر کوئی الزام سچا ثابت نہیں ہوا نہ ہوگا کیونکہ میں انسان ہوں بھول چوک ہوسکتی لیکن اپنی دانست کے مطابق کوئی بھی غلط کام آج تک نہیں کیا ہے۔
چوتھا سوال: آپ کے پاس ضلعی سطح کا بڑا عہدہ ہے جسکی وجہ سے بہت سارے رشتہ دار یا قریبی دوست احباب بہت ساری امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں لہذا ایسے لوگوں سے کیسے نمٹتے ہیں؟
ڈاکٹر مسرت حسین: اکثر اوقات مجھ سے لوگ کہتے کہ آپ نے ایک دستخط کرنا ہے اور ہماری زندگی بن جائے گی اور یہ انکی سوچ کے مطابق بات بھی ٹھیک ہے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ میں اپنے ایک ایک دستخط کا ذمہ دار ہوں اور بعد میں پھر مجھے اس ایک سائن کی قیمت بھی چکانی پڑسکتی ہے لہذا لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ کوئی بھی کام ہو اس میں ایک ترتیب ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ کام کیا جاتا ہے اب جیسے میں ہم ایک کلاس 4 بھی لگاتے ہیں تو اس میں میرے ساتھ سیکشن آفیسر میرا ممبر ہوتا ہے اور ایک ایک کاغذ چیک کیا ہوتا ہے جسکے بعد جاکر لیٹر جاری کیا جاتا ہے حالانکہ آخر مرحلے پر بطور سربراہ کی حیثیت سے میرے دستخط ہوتے ہیں لیکن پیچھے ایک لمبا طریقہ کار ہوتا ہے جسے کچھ لوگ سمجھ جاتے ہیں اور بعض لوگ نہیں سمجھتے۔
پانچواں سوال: آپ کی کزن بیٹے کی نوکری کیلئے آپ کے بیڈروم میں کیسے گھس گئی تھی؟
مسرت حسین بلوچ: ایک دفعہ میری کزن خالہ کی بیٹی میرے گھر آگئی اب چونکہ یہ پہلی بار نہیں تھا کیونکہ وہ دو سال سے متواتر آرہی تو میں شرم سے بیڈروم میں چھپ گیا اور بیوی کو کہا کہ انہیں کہو نہیں ہوں گھر پر لیکن میرا بیٹا اچانک ابو ابو کرتا ہوا میری طرف بیڈروم بڑھا تو وہ اس کے پیچھے آگئی اور مجھے گالی دینے لگ گئی کیونکہ کہ میں مجبورا اپنے گھر کے بندے کا کام بھی نہیں کرپارہا ہوں کیونکہ میں ناصرف عوام کو جواب دہ ہوں اپنے محکمہ کو بھی جواب دہ ہوں اور مجھ پر انکوائریز بھی بنی ہیں جن میں الحمدللہ اپنی شفافیت اور مکمل ریکارڈ موجود ہونے کی وجہ سے سرخرو ہوا ہوں۔ وہ انکوائریز بند ہوگئیں کیونکہ میں نے جتنے کام کیئے ہوئے تھے وہ قانون کے مطابق تھے۔
چٹھا سوال: آپ پر الزام ہے کہ آپ نے بطور ایجوکیشن آفیسر اپنی آبائی تحصیل پہاڑ پور کو زیادہ ترجیح دی ہے اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر: ایک دوست نے کچھ دن پہلے یہی شکوہ کیا کہ پہاڑ پور کی طرف اسکولز زیادہ اپگریڈ ہوئے ہیں کیونکہ وہ آپ کا اپنا گھر یے اور کلاچی کی طرف نہیں ہوئے تو میں نے انہیں جواب دیا کہ کلاچی کی طرف فزیبل اسکول مجھے بتاؤ میں فورا اسکی اپگریڈیشن بھیجوا دیتا ہوں، لیکن آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پہاڑ پور کے اسکول اورکراوڈڈ یعنی وہاں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کے لیئے چھت بہت ضروری ہے اور وہ سب کچھ میرٹ پر ہوا کیونکہ یہ صرف میرا ڈیٹا نہیں ہوتا بلکہ میں جو ڈیٹا بھیجتا ہوں وہ دو جگہوں پر کراس چیک ہوتا ہے ایک ہمارا آئی ای ایم ایس ہے اور دوسرا مانیٹرنگ جو تھرڈ پارٹی ہے ناکہ وہ ہمارے محتاط ہیں وہ یہ سب کچھ کی تصدیق کرتے ہیں پھر جاکر وہ آگے کے لیئے بھیجا جاتا ہے۔
ساتواں سوال: بذریعہ ایٹا ٹیسٹ اساتذہ کی بھرتی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ کلاس 4 وغیرہ کی میرٹ پر بھرتی کا کیا معیار ہے؟
ایجوکیشن آفیسر مسرت حسین بلوچ: کلاس 4 کیلئے یہ طریقہ کار اختیار جاتا ہے کہ ایک ادارہ ہے ائمپلائے منٹ ایکسچینج آفس ہے لہذا جہاں یہ موجود ہو وہاں آپ کو ایڈورٹائزمنٹ کی ضرور ت نہیں ہوتی ہے، اور ہم اس آفس کے مینیجر کو ایک لیٹر جاری کرتے جس کے تحت وہ ہمیں اپنے پاس رجسٹرڈ بے روزگار لوگوں کی لسٹ فراہم کردیتا ہے، اور پھر ہم ان لوگوں کو بلاتے ہیں جبکہ انٹرویو کے دوران ہماری ترجیح یہ ہوتی ہے کہ جہاں کی پوسٹ ہے اس پر وہاں کا بندہ لگایا جائے۔ علاوہ ازیں بعض اوقات غیر مقامی
بھی ہوتے ہیں لیکن وہ وہ لوگ ہوتے جو کوٹہ میں آتے ہیں جیسے سن کوٹہ ہوگیا وغیرہ 25٪ میں آتے ہیں کو لگایا جاتا ہے۔
آٹھواں سوال: ایسا کیوں ہے کہ Need Based پر کچھ اساتذہ کو PST سے SST وغیرہ پر رکھا جاتا ہے کیا اس سے دوسرے اسکول کے بچوں کے ساتھ ناانصافی نہیں؟
ڈاکٹر مسرت حسین خان: یقینا کچھ جگہوں پر ہم نے یہ طریقہ کار اپنایا ہے کہ یہ اس لیئے کیا ہے کیونکہ کچھ اسکول میں ان اساتذہ کی ضرورت تھی جیسے کہ ایک بائیو کا استاد ہے اور وہ کسی پرائمری اسکول میں بیٹھا ہے جبکہ دوسرے سیکندری اسکولز میں اس کی اشد ضرورت ہے تو ہم نے انہیں ضرورت والے اسکول میں Need based پر رکھا لیکن پرائمری اسکول میں بھی وہ جگہ خالی نہیں چھوڑی اور جو بچے سائنس کے ہیں اب آپ کو پتہ ہے کہ آگے جاکر وہ ڈاکٹر بنیں گے یا سائنس میں کوئی کام کریں گے تو ان کیلئے اپنے مضمون کا استاد ہونا انتہائی لازمی ہے۔ علاوہ ازیں ابھی بہت جلد نئے اساتذہ کی بھرتی کیلئے ایڈورٹائزمنٹ ہوجائے گی اور مجھے
امید ہے اب ہمیں نیڈ بیسڈ کی ضرورت نہیں رہے گی۔
نواںسوال: کتب کی تقسیم کیلئے اساتذہ کو رکھا گیا ہے حالانکہ کتب موجود ہی نہیں اور یہ کام تو کلرک یا کلاس 4 بھی کرسکتے ہیں ؟
ڈاکٹر مسرت حسین بلوچ: بظاہر کتب کی تقسیم ایک عام بات لگتی ہے لیکن یہ ایک حساس معاملہ ہے جیسے کہ اس میں اسلامی کتب بھی ہوتی ہیں تو اساتذہ کو یہ ذمہ داری اس لیئے دی جاتی ہے کیونکہ وہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور سار ا کام خیال سے کرتے ہیں کیونکہ اگر کلاس 4 کے ذمہ لگادیں تو زیادہ تر کلاس 4 پڑھے لکھے نہیں ہوتے اب وہاں کسی سے اسلامی کتب جس میں عربی یا اسلامی کتابیں ہوتی کہیں گر جائیں یا نیچے رکھ دیں وغیرہ تو اس سے پھر کوئی نہ مسئلہ بھی کھڑا ہوسکتا جیسے آپ کو معلوم ہے کہ ایک جگہ پر کچرے کو جلایا گیا اور اس میں عربی کی تحریر ملی جس میں ہنگامہ ہوگیا کہ قرآنی آیات کو جلایا گیا اب حالانکہ جس نے جلایا وہ کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا یا انہوں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا ؎ لہذا ہم ایسے کسی مسئلے سے بچنے کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ باقی جو ہم نے آرڈ ر کیئے تھے وہ 5 اکتوبر تک تھے اور وہ ختم ہوگئے ہیں جسکے بعد تمام اساتذہ اپنے اپنے اسکول چلے گئے ہیں۔
دسواں سوال: سرکاری اسکولز کا حالیہ رزلٹ تقریبا 50٪ تھا لہذا ریفشلنگ پالیسی کیوں نہیں اپنائی جاتی کیونکہ کئی کئی سال سے اساتذہ ایک ہی اسٹیشن پر موجود ہیں؟
ڈاکٹر مسرت حسین بلوچ: میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہو تاکہ جن اساتذہ نے اچھا پرفارم نہیں کیا اور رزلٹ اچھا نہیں تو انہیں تبدیل کیا جائے لیکن حکومت کی طرف سے اس پر مکمل پابندی ہے اور ابھی ریفشلنگ پالیسی نہیں ہے، لیکن ہم میوچل طور پر کرسکتے ہیں اور ابھی جیسے نئے اسکول بنے ہیں اور ان کو فنکشنل کرنا ہے تو وہاں اساتذہ بھیج سکتے ہیں، لہذا میں خود بھی اپنے محکمہ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسی پالیسی کو لاگو کیا جائے گا اور بچوں کا مستقبل بہتر بنایا جائے۔ ابھی میٹرک کے امتحانات میں میرے پاس 110 اسکول تھے جس میں 100 اسکول کا رزلٹ 50٪ سے اوپر تھا، اور 100 ٪ بھی آیا ہے اور باقی جن کا زیرو٪ تھا وہ 110 میں سے صرف 10 تھے۔
گیارہواںسوال: پی ٹی سی فنڈ اور کنڈیشنل گرانٹ کے باوجود بہت اسارے اسکولز کی دیوار یں نہیں اور ناہی ان کے واش روم فعال ہیں ایسا کیوں؟
ایجوکیشن آفیسر: ایک ہوتا ہے پی ٹی سی فنڈ اور ایک ہوتا ہے کنڈینشل گرانٹ اب پی ٹی سی فنڈ میں ہر کمرے کیلئے کل 6 ہزار روپے ملتے ہیں حالانکہ آج کے مہنگائی کے دور میں 6 ہزار کی کیا حیثیت ہے ، جبکہ 5 ہزار روپے اسکول بچوں کی اسٹیشنریز کیلئے ہوتے ہیں، اب کل اگر دو کمرے بھی ہوں تو آپ کو 22 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ملے گا لیکن آپ سوچو کہ یہ رقم ایک سال کیلئے کتنی کافی ہوگی؟۔۔۔اور کنڈینشنل گرانٹ فنڈ 2019 سے ابھی تک نہیں آیا ہے اور اس میں چار دیواری ، کلاس روم ، سولر سسٹم، گروپ واش رومز ہوگئے یہ چیزیں بناتے ہیں، لہذا اب چونکہ وہ فنڈ نہیں مل رہا تو کچھ این جی اوز یہ کام کررہی ہیں جیسے یونیسف وغیرہ جبکہ ورلڈ بینک کے تعاون سے ابھی تحصیل درابن اور پروآ میں ٹینڈرنگ وغیرہ ہوگئی ہے ۔۔اور کچھ پر کام شروع ہے اور کچھ پر کام جلد شروع ہوجائے گا، جس کے بعد یہ چار دیواری اور واش رومز وغیرہ کا ایشو نہیں رہے گا۔
بارہواںسوال: آپ پر الزام ہے کہ ایجوکیشن آفس میں کچھ استاذہ موجود ہیں حالانکہ ان کا کام پڑھانا ہے اور یہاں کلرک یا دوسرا سٹاف ہونا چاہئے لیکن وہ کیوں موجود ہیں؟
ڈسٹرک ایجوکیشن آفیسر ڈاکٹر مسرت بلوچ: دفتر میں کوئی بھی ایسا استاد موجود نہیں ہے، اور سب برانچز میں کلرک بیٹھے ہوئے ہیں، البتہ ایک ہماری برانچ ایسی ہے جہاں مختلف مقدمات کیلئے جیسے کہ عدالتوں میں کیسز ہوتے ان کیلئے قابل لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں کچھ اساتذہ نے ایسا کیا کہ اکاؤنٹس آفس میں کچھ لوگوں کام کروانے کیلئے پیسے لے لیئے تو یہ ان کا خود کا مسئلہ ہے اور میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اور میں نے اکاؤنٹس آفس کو لیٹر لکھا ہوا ہے کہ ہمارے جو اسکولز کے کلرک ہیں وہی ہمارے فوکل پرسن ہیں اور ان کے علاوہ آپ کسی سے کوئی کام نہ لیں..ابھی کچھ ساتذہ پر سیکٹریٹ سطح کی انکوئری بھی آئی ہوئی ہے، اور اگروہ بمع ثبوت ملوث ہونگے تو کاروائی ہوگی۔