پاکستان ایک نظریہ کے تحت بنایا گیا تھا ، دو قومی نظریہ یعنی کے دو قوموں کے الگ الگ نظریات جو کسی صورت پر یکساں نہیں ہو سکتے اس کی وجہ سے 14 اگست 1947 کو پاکستان کا قیام ہوا۔ اقبال کا خواب اور قائداعظم کی محنت رنگ لی آئی مگر یہ محنت سن 1971 میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان، سن 1970 سے 1971 کے درمیان ہونے والے اکثر واقعات قوم کے جوانوں سے آج تک چھپائے جاتے ہیں کیونکہ اس دور میں دو قومی نظریہ کو بھی دو حصہ میں تقسیم کر دیا گیا تھا وہ بنگالی جو 1947 تک پاکستان بننے کے لیے بے تاب تھے مسلم لیگ، کراچی، لکھنو، لاہور میں نہیں 1906 میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی، 1906 سے 1947 تک تو بنگالی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے سب سے زیادہ وفادار تھے لیکن 1947 سے 1971 تک کے 24 برسں میں وہ غدار کیسے بن گئے۔۔۔؟
1965 کے پاک فضائیہ کا بنگالی پائلیٹ ایم ایم عالم ہی تھا جس نے دو منٹ میں بھارت کے پانچ طیارے گرائے تھے ۔ آخر کیا وجہ تھی کہ 24 سال بعد بنگالی اُسی ملک پاکستان سے الگ ہونا چاہتے تھے ؟ 24 سال کسی ملک کو توڑنے کے لئے بہت تھوڑی مدت ہے مگر دل توڑنے کے لیے بہت زیادہ ، جب کسی ریاست کے حکمران کسی ایک فرقے یا قوم کو اس کے حقوق سے دور رکھنے لگ جائیں یا اس کے حقوق تلف کیے جائیں گے پھر اس وقت ریاست میں پھوٹ پڑتی ہے، ایسی قوموں میں اپنے حقوق لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو کہ ایک چنگاری کی شکل اختیار کرتا ہے اور پھر یہی چنگاری آگ کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔
1971 میں پاکستان کے حکمران طبقے سے ایسی کچھ غلطیاں ہوئیں جن کی وجہ سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوا ان غلطیوں سے حکمران طبقہ کو کچھ سیکھنا چاہیے تھا، جو کہ نہ ہوا۔ اپنے بزرگوں سے سنا تھا عقلمند لوگ دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں جب کہ بے وقوف اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں مگر ہم کسیے سیکھتے ہم نے تو اپنی غلطیوں پر ہمیشہ سے پردہ ڈال رکھا تھا ، پاکستان بنانے کے بعد سے آج تک ہر پارٹی نے پاکستان میں ہر اس جگہ کو زیادہ اہمیت دی ہے جہاں سے ان کو زیادہ ووٹ مل سکتے تھے۔ بلوچستان پاکستان کے رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے ، پاکستان کی گیس کی زیادہ تر ضرورت پوری کرتا ہے،مگر خود اس صوبے کے بیشتر حصےمیں یہ سہولت موجود نہیں ہے کبھی سوچا ہے کہ کیوں؟چلیں اسے چھوڑ دیجیے ،ہمارے ملک میں کوئلے کی سات فیصد ضرورت بھی اِسی ہی صوبے سے پوری کی جاتی ہے جہاں لاکھوں ٹن تانبا زمین میں دبا ہوا ہے ،ایسا صوبہ جو کہ مدنی دولت سے مالا مال ہے وہاں کا ستر فیصد حصّہ غربت سے بھی نیچے کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
13 اگست کو تربت میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے مقام کے قریب ہی اپنے والدین کے ہمراہ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کو شک کی بنا پر گولی مار دی گئی ۔ حیات بلوچ اور حیات بلوچ جیسے کئی بلوچستان کے نوجوان اسی شک کی بنیاد پر غدار قرار دے کر گولی کا نشانہ بنا دیے جاتے رہے ہیں اور آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ ہمارے حکمران آج بھی 1971ء کی طرح عبدی نیند سو رہے ہیں جس کی وجہ سے کئی بلوچ طلباء نے انصاف کے لیے اور حکمرانوں کو جگانے کے لیے احتجاج کے ذریعے اپنے حقوق مانگنے کو ترجیح دی اور 22 اگست کو احتجاج کی کال بھی دی ، اس سے پہلے بھی کئی بلوچ آج تک جبری گمشدگی کا شکار ہیں یہاں تک کہ ان کی فیملی یہ بھی نہیں جانتی وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ حیات بلوچ کے جیسے بہت سے بے گناہ لوگوں کی فیملی اور گمشدہ افراد کی فیملی یہ سوچتی تو ضروری ہو گی کہ کیا ہم پاکستانی ہیں یا ہمیں ایک الگ ملک سے کیا ملا۔۔۔۔؟ یہ سوچ ابھی کچھ افراد کی ہے مگر جس دن یہ سوچ نظریہ میں تبدیل ہو گئی، پاکستان ایک دفعہ پھر ٹوٹے گا اور ہم پھر بولیں گے بلوچستان ہمارا تھا۔جیسے آج بولتے ہیں کشمیر ہمارا تھا اور بنگال ہمارا تھا۔