عنایت اللہ المعروف ٹائیگر خیبرپختونخواہ پولیس بم دسپوزل یونٹ کے انچارج ہیں اور اب تک سینکڑوں بم اور کئی آئی ڈیز ناکارہ بنا چکے ہیں کی وہ والدہ جنہوں نے اپنے بیٹے کو وطن پر قربان ہوجانے کا کہا تھا بروز سوموار (اکیس اکتوبر دو ہزار چوبیس )کی صبح انہیں اسپتال لایا گیا تاہم وہ علالت کے باعث چل بسی اور انہیں مقامی قبرستان سپرخاک کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایک دفعہ ٹائیگر مائینز کلئیرنس کے دوران آئی ڈی پھٹنے سے اتنے شدید زخمی ہوئے کہ انکی ایک ٹانگ کاٹنی پڑگئی تاہم ان کی والدہ جو اتنی پڑھی لکھی بھی نہ تھی اور ڈیرہ اسماعیل سے کئی کلو میٹر دور نزد کنڈی ماڈل فارم چشمہ روڈ چھوٹے سے گاؤں کوکارہ میں رہتی تھی نے اپنے بیٹے کی ہمت بندھائی اور کہا کہ میں اپنے کندھے پر تمہاری لاش اٹھانے کو تیار ہوں مگر تم نے اپنا کام نہیں روکنا ہے اور جب تک زندہ ہو اسی طرح دہشتگردی کے خلاف لڑتے رہنا ہے۔
ماں کی اس نصیحت کے بعد ٹائیگر میں اتن جوش و ہمت بڑھی کہ انہوں نے فورا ٹھیک ہونے کے بعد دوبارہ سے کٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ کام شروع کردیا۔ عنایت اللہ ٹائیگر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ 2650 بم ناکارہ بنانے کے علاوہ 4500 کلو بارود ناکارہ کرچکے ہیں۔ جبکہ 20 جنوری 2014ء کو عنایت اللہ ٹائیگر کی ایک ٹانگ اور دو انگلیاں مائنز کے دھماکے میں کٹ گئیں تھیں ، انکا دایاں ہاتھ ایک ایکسیڈنٹ میں بری طرح متاثر ہوا، لیکن وہ پھر بھی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 23 مارچ 2015ء کو صدر مملکت ممنون حسین ک(مرحوم) کیجانب سے انہیں تمغہ شجاعت بھی مل چکا ہے۔ خیال رہے کہ 20 جنوری 2014ء کو تھانہ کلاچی کی حدود لونڑی کے علاقے میں مائنز کی کال موصول ہوئی تھی ، جب ٹائیگر وہاں پہنتچا تو ان مائنز سے تین دھماکے پہلے ہوچکے تھے اور کئی چرواہے بھی زخمی ہوئے تھے، اس کے علاوہ اور بھی مائنز کافی تعداد میں بچھی ہوئی تھیں۔
ٹائیگر بتاتے ہیں کہ مائنز فیلڈ میں ہوتا ہوں تو مجھ پہ دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، مائنز کو ناکارہ کرنا جتنا آسان ہے، اتنا ہی خطرناک بھی ہے۔ میں اس وقت مائنز ناکارہ بنانے میں لگا ہوا تھا، 5 سے 6 کے قریب ناکارہ بنا چکا تھا، جبکہ آخری مائن رہ گئی تھی۔ میری عادت ہے کہ میں اپنا کیمرہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں، جہاں بھی کام کر رہا ہوں، میں اس کی ویڈیو ریکارڈنگ ضرور کرتا ہوں، میرے کیمرے کی میموری ختم ہو رہی تھی، ڈرائیور نے آواز دی کے سر میموری کارڈ میں اسپیس ختم ہونے والی ہے، میں وہاں سے اُٹھا کیمرہ بند کیا، شام ہونے والی تھی، علاقہ بھی خطرناک تھا، ذرا جلدی تھی مجھے کہ کام ختم کرکے گھر جاؤں، جب واپس اس مائن کی جانب بڑھا تو جو علاقہ کلیئر کر چکا تھا اس سے تھوڑا ہٹ گیا، جونہی میں اس بم کے قریب بیٹھا تو ایک مائن جو کہ گہرائی کی وجہ سے میری نظر میں نہیں آئی، اس پر پاؤں آگیا اور ایک دم سے دھماکا ہوا، میں اپنی سوچ میں تھا کہ میرا علاقہ سیکیور ہے اور یہ آخری مائن ہے۔ اتنے میں وہاں موجود سیکیورٹی اہلکار نے آواز دی کہ عنایت ختم ہوگیا ہے، میں نے فوراً آواز دی کہ میں ٹھیک ہوں، مجھے اس وقت دھول مٹی کی وجہ سے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میری ٹانگ میرے ساتھ ہے یا نہیں۔ تھوڑی دیر میں دیکھا تو ٹانگ کی ہڈی کٹ کے دور پڑی ہوئی تھی، انگوٹھا اور ساتھ 2 انگلیاں کٹی ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ عنایت اللہ ٹائیگر چھ دھماکوں اور حملوں میں زخمی ہوچکے ہیں اور اس دوران ان کی جان جا سکتی تھی لیکن ان کا خیال ہے کہ اب تک ان کی والدہ کی دعائیں ان کے ساتھ تھیں۔ عنایت اللہ ٹائیگر کی والدہ کے نماز جنازہ میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت اور ٹائیگر کی بہادر ماں کو سپرد خاک کرنے تک ڈیرہ اسماعیل خان وہ لوگ بھی ساتھ ٹہرے رہے جن کا عنایت اللہ ٹائیگر سے زاتی وابستگی بھی نہ تھی ۔ قبرستان میں موجود ایک شہری رحمت بھٹہ نے بتایا کہ ٹائیگر ہمارا ہیرو ہے اور میں آج سے پہلے ان سے کبھی ملا بھی نہ تھا لیکن ان کی والدہ کے انتقا ل کا سنا تو ایسا لگا جیسے میری ماں ہوں اور ایسی بہادر ماں جس نے اپنا بیٹا وطن کے نام کردیا تاکہ وہ ہم عوام کو دہشتگردوں سے بچا سکیں کے بارے تعریف کرنے لیئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔