مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ ان ہدایات کے مطابق بھیجیں تاکہ آپ کا بھیجا گیا مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ جلد پراسیس کیا جا سکے۔ ان ہدایات کے آخر میں ایمیل دی گئی ہے جس پر مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ بھیجا جانا چاہیے۔ مندرجہ ذیل چیک لسٹ کے مطابق معلومات بھیجیں۔
اگر آپ کا کوئی مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ پہلے پبلش ہو چکا ہے تو اس کا یا روزنامہ قل پر اپنے آتھر پروفائل کا لنک
ورنہ
1۔ مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ ( مائیکروسافٹ ورڈ فارمیٹ میں)۔ مائیکروسافٹ کے اندر لکھا گیا مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ ہمارے لیے سب سے آسان ہوتا ہے۔ آپ اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون پر ایمیل میں ہی مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ لکھیں اور بھیج دیں۔ مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ کا کچھ تعارف ایمیل کے متن میں شامل ہونا چاہیے تاکہ اٹیچمنٹ کھولے بغیر ہمیں پتہ چل سکے کہ مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ کس موضوع پر ہے اور اس کا معیار کیا ہے۔
2۔ آپ کی تصویر
3۔ شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس یا سٹوڈنٹ کارڈ وغیرہ کی تصویر
4۔ فیس بک پروفائل کا لنک (برائے رابطہ)
5۔ فون نمبر (برائے رابطہ)
اشاعت کب ہو گی؟
مضمون، کالم، فیچر، نیوز اسٹوری، بلاگ بھیجنے کے بعد اس کی اشاعت کے لئے انتظامیہ کو فوراً میسینجر یا فون پر پیغامات بھیجنے سے گریز کریں۔ کام کرتے ہوئے ایمیل دیکھی جاتی ہے اور آپ کے فون کرنے یا پیغام بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر مضمون دو دن تک شائع نہیں ہوا تو اس صورت میں رابطہ کریں۔ مضمون شائع ہونے پر سسٹم آپ کو خودکار طریقے سے لنک بھیج دے گا۔
ادارتی ٹیم باری آنے پر مضمون کا جائزہ لے لے گی اور اگر مضمون معیاری ہوا اور ہمارے پاس اسے شائع کرنے کی گنجائش ہوئی تو اسے شائع کر دیا جائے گا۔ روزنامہ قل ایسے مضامین شائع کرنے کو ترجیح دیتا ہے جو خاص طور پر صرف روزنامہ قل کے لئے ہی لکھے گئے ہوں اور کسی دوسری جگہ اشاعت کے لئے نہ بھیجے گئے ہوں۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ کا بھیجا ہوا مضمون لازمی طور پر شائع کیا جائے۔ ادارتی ٹیم کسی بھی مضمون کو مسترد یا قبول کر سکتی ہے، اور کسی شائع شدہ مضمون کو ہٹا سکتی ہے۔ ادارتی ٹیم اپنے فیصلے کی وجوہات بیان کرنے کی پابند نہیں ہے۔
مضمون عموماً دو یا زیادہ سے زیادہ تین دن میں شائع کر دیا جاتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ مضمون موصول ہوتے ہی جلد از جلد شائع کیا جائے۔ لیکن پہلے سے آئے ہوئے دیگر مضامین اور دستیاب عملے پر کام کے لوڈ وغیرہ جیسی وجوہات کی بنا پر تاخیر ہو سکتی ہے۔
کمپوزنگ
مضمون ٹائپ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ہر لفظ کے بعد ایک سپیس ڈال رہے ہیں۔ ہر جملے کے اختتام پر فل اسٹاپ ضرور ڈالیں۔ ایک سے زیادہ رموز اوقاف استعمال مت کریں، ایک ہی کوما، فل اسٹاپ یا دیگر علامت لکھیں اور ،،، یا ۔۔۔۔ یا ؟؟؟ یا !!!! وغیرہ لکھنے سے گریز کریں۔
خاص طور پر “کی” اور “کے” کے بعد ایک سپیس ڈالنے پر توجہ کریں۔ آئینگے ، آئینگی ، وغیرہ کی بجائے ’آئیں گے ‘ اور ’آئیں گی ‘ لکھنے کی کوشش فرمائیں۔ اسی طرح جائینگے ،جائینگی ، وغیرہ کی بجائے ’جائیں گے ‘ اور ’جائیں گی‘ لکھا جائے تو بہتر ہے۔ انکی، جسکی، انکو، آپکی ، آپکے ، انکے اور جسکے کی بجائے ان کی، جس کی، ان کو، آپ کی ، آپ کے ، ان کے اور جس کے لکھنے کی کوشش کیجئے۔
جہاں اردو لفظ ممکن ہو، وہاں انگریزی لفظ سے گریز فرمائیں۔ اگر انگریزی لفظ بھی ہے تو اسے اردو املا میں لکھنے کو ترجیح دیں۔
سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ مضمون کو ایمیل میں ہی لکھ دیں۔ لیکن آپ مضمون کو ان پیج، مائیکروسافٹ ورڈ یا ایچ ٹی ایم ایل فارمیٹ میں بھیج سکتے ہیں۔ اس صورت میں اس بات کا خیال رکھیں کہ مضمون کا مکمل متن یا کچھ تعارف ایمیل میں شامل ہو تاکہ فائل کھولے بغیر ہی مضمون پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جا سکے۔ ایسے مضامین جن میں ایمیل میں یونیکوڈ فارمیٹ میں متن دیا گیا ہو، پہلی فرصت میں پراسیس کیے جاتے ہیں۔
تحریر اور موضوعات
اپنا مضمون بھیجنے سے پہلے کم از کم ایک مرتبہ ضرور پڑھیں۔ کمپوزنگ کی بہت سی غلطیاں آپ خود نکال سکتے ہیں۔ جس تحریر میں کم غلطیاں ہوں، اس پر ایڈیٹر کی کم محنت لگتی ہے، اور وہ جلد شائع ہو سکتی ہے۔
تحریر کی طوالت 600 سے 1200 الفاظ کے درمیان ہونی چاہیے۔ بعض صورتوں میں استثنا دیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ مضمون کا عنوان لگانا، تحریر میں موجود غلطیاں درست کرنا، غیر مہذب یا غیر اخلاقی مواد کو حذف کرنا، ایسا مواد جو کہ ادارتی پالیسی کے خلاف ہو، اسے حذف یا تبدیل کرنا اور بات کو واضح کرنے کے لئے متن میں تبدیلی کرنا، کسی بھی ایڈیٹر کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر آپ ایڈیٹر کے اس اختیار سے متفق نہیں ہیں تو، براہ کرم اپنا مضمون کسی اور جگہ شائع کرنے کے لئے بھیجیں، ہم اسے شائع کرنے سے قاصر ہیں۔
مضمون لکھنا ایک بڑی ذمہ داری ہے اور مضمون بھیجتے ہوئے آپ اس بات کے بارے میں سوچ لیں کہ آپ کو اس مضمون پر آنے والے اچھے یا برے عوامی ری ایکشن یا قانونی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لئے خوب سوچ سمجھ کر مضمون لکھیں۔ روزنامہ قل کی ادارتی ٹیم ایڈیٹنگ کرتے ہوئے حتی المقدور کوشش کرتی ہے کہ مضمون میں موجود ایسا مواد ٹھیک کر دیا جائے جو پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے۔ مضمون بھیجنے سے پہلے خوب غور کر لیں کیونکہ عام حالات میں مضمون شائع ہونے کے بعد سائٹ سے ہٹایا نہیں جائے گا۔
اگر آپ کسی دوسرے مصنف کے مضمون کا جواب لکھ رہے ہیں، یا حالات حاضرہ پر عمومی تبصرہ کر رہے ہیں تو اس فرد کو نشانہ بنانے کی بجائے اس کے موقف پر بات کریں۔ مضمون میں اگر کسی کی کردار کشی کا پہلو ہو تو اس کے شائع ہونے کا امکان بہت کم ہے۔
مضمون میں اگر آپ کسی واقعے، فرد یا جگہ وغیرہ کا ذکر کر رہے ہیں تو پہلے کسی ماخذ سے اپنے بیان کی درستی کا یقین کر لیں۔
ادارتی پالیسی
’روزنامہ قل میں ادارتی پالیسی بالکل واضح ہے۔ دائیں اور بائیں کی کوئی قید نہیں۔ مذہبی اور غیر مذہبی نقطہ نظر پر کوئی پابندی نہیں۔ کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کی بنیاد پر کوئی تحریر روکی نہیں جاتی۔ اظہار کی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے۔ اظہا ر کی آزادی میں بنیادی مفروضہ یہی ہے کہ صحیح یا غلط ، دلیل سامنے آئے گی تو اس کے رد میں موجود دلیل کو بھی سامنے آنے کا موقع ملے گا۔ ذہانت پر صحافی کا اجارہ نہیں۔ پڑھنے والا سب سے زیادہ ذہین ہے۔ وہ پڑھے گا۔ سوچے گا اور دلیل کو قبول یا رد کرے گا۔ اگر صحافی دلیل کو روک لے گا تو پڑھنے والے کو معلومات تک رسائی کے بنیادی حق سے محروم کرے گا۔ اس میں معمولی سی شرط یہ ہے کہ صحافت میں ناشائستہ لب و لہجہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کو گالی نہیں دی جا سکتی۔ کسی مذہبی ، ثقافتی یا نسلی گروہ کے خلاف اشتعال نہیں پھیلایا جا سکتا۔ نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کسی کو جرم کی ترغیب دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ قانون شکنی کی حمایت نہیں کی جاتی۔ کسی جرم پر اکسانا اظہار کی آزادی میں شامل نہیں ہوتا۔
’روزنامہ قل‘ کو آپ کی تحریریں شائع کر کے خوشی ہو گی کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ’روزنامہ قل‘ ایک ایسے آن لائن پلیٹ فارم کی صورت اختیار کر سکے جہاں پاکستان میں ہر طرح کی سوچ رکھنے والے کھلے دل و دماغ سے ایک پرامن اور مفید اجتماعی مکالمے کا حصہ بن سکیں۔
اپنے مضامین اس ایمیل ایڈریس پر بھیجیں۔
blogs.dailyqul@gmail.com
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مذہبی و سماجی اقدار سے مطابقت نہ رکھنے والی نگارشات ہرگز شائع نہ کی جائیں گی۔