اس کار گاہِ دہر میں فطرت کے مسلّمہ اصول و قواعد ہمیشہ متبوع اور مطاع جب کہ تقدیرِ امم ان کے تابع و مطیع رہی ہے۔ یہ اصول نہ تو کسی قوم یا فرد کے حسب و نسب کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ مذہب و تمدن کی پرواہ کرتا ہے۔ جو شخص، قوم یا ملت ان اصولوں کی پاسداری کرتی ہے تو کامیابی و سرفرازی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور یہی لوگ ہی مقدر کے سکندر ہوتے ہیں اور جو قومیں ان اصولوں سے اعراض و انحراف کرتے ہوئے عیش و عشرت اور اپنے من کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو وہ بِلا تردد غیر مفلح اور بے نیل مرام قوموں میں شامل ہوجاتے ہیں جو بعد میں پچھتا کر تقدیر کو ذمہ دار گردانتے ہیں۔ فطرتی اصولوں سے منحرف ہوکر تقدیر الہی پر رضامندی ظاہر کرنا سراسر نادانی اور حماقت ہے۔ شاعرِ مشرق نے اس حوالے سے کیا خوب فرمایا ہے،
؎خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
فطرتی اصولوں کی تعمیل و پاسداری کرتے ہوئے انسان ہمیشہ تو نہیں لیکن اکثر اوج مراتب اور کامیابی حاصل کر لیتا ہے جسے توکّل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور دنیوی اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے انجام کو مشیت الہی پر چھوڑنے کا نام توکل ہے اور اس انجام کو مقدر کا لکھا ہوا تصور کیا جائے گا چاہے کسی کو پستی ملے یا عروج۔
روئے زمین پر ازل سے دو قوتیں عقائد،نظریات مذہب یا دوسرے امور کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ جنگ و جدل اور مخاصمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن کامیابی و سرفرازی کے اوج فلک کو اکثر وہ قوم چھوتے ہیں جو عیش و عشرت کا دلدارہ یا طاؤس و رباب کا رسیا ہونے کی بجائے شمشیر و سناں سے الفت رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ان فطرتی اصولوں (عیش و نعم کی زندگی سے نکل کر اپنی دفاع کو مضبوط بنانا) کو اپناتے ہوئے قومیں فاتح اور بامراد ٹھہرتی ہیں۔ بقولِ اقبالؒ،
میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
بیت المقدس کو عیسائیوں کے تسلط سے واگزار کرانے کے لیے حضرت عمرؓ جب فلسطین میں بطورِ فاتح داخل ہوئے تو اس وقت عیسائی اندرونی اختلافات کا شدید شکار تھے۔ عیسائی علماء مناظروں میں سرگرم تھے اور مناظرے بھی فروعی مسائل میں کر رہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے مسائل کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو کافر ٹھہرا رہے تھے۔ دو عیسائی فرقوں میں اس مسئلہ پر مناظرہ چل رہا تھا کہ حضرت عیسٰیؑ نے کبھی چھانے ہوئے آٹے کی روٹی تناول فرمائی تھی یا نہیں۔ ایک فریق کا موقف تھا کہ حضرت عیسٰیؑ نے چھانے ہوئے آٹے کی روٹی کھائی تھی اور تم اس سے انکار کرتے ہو لہذا تم اس بنا پر کافر ہو۔ دوسرے فریق کا موقف تھا کہ عیسیؑ پر الزام لگا رہے ہو اور اآپؑ نے چھانے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی تھی لہذا ہم نہیں بلکہ تم کافر ہو۔دونوں فرقے اس مسئلے پر حجت بازی سے کام لے رہے تھے کہ عین اسی وقت مسلمان ان پر حملہ آور ہوکر غالب ہوئے۔
اسی طرح اگر ہم اپنی تاریخ کے اوراق کو پلٹائیں تو ہمارے مسلمانوں کے بھی اس قسم کے برے حالات دیکھے جا سکتے ہیں۔ آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے زمانے میں موصل شہر دو چیزوں کیلئے بہت مشہور تھا، ایک جنگی سازوسامان کے لیے دوسرا آلاتِ موسیقی کے لیے۔موصل کے بازار میں عباسی خاندان کے شہزادے اور منگول فوجیں بیک وقت خریداری میں مصروف تھے لیکن فرق صرف یہ تھا کہ شہزادے آلاتِ موسیقی جبکہ منگولی فوجیں جنگی سازوسامان کی خریداری میں مصروف عمل تھے۔علماء کی حالت یہ تھی کہ بغداد کے چھوٹے چوراہوں پر ان کے درمیان فروعی اور بہت چھوٹے چھوٹے مسائل پر مناظرے ہو رہے تھے۔ کہیں اس بات پر مناظرہ کہ کوا حلال ہے یا حرام تو کہیں اس بات پر کہ مسواک کی شرعی لمبائی کتنی ہونی چاہیے۔ اس دوران ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کرکے مستعصم بااللہ کو گرفتار کیا اور اتنی قتل و غارت کی کہ بغداد کی گلیاں مسلمانوں کے خون سے لال ہو گئے۔ تقریباً ایک ہفتہ بعد ہلاکو خان نے قیدی خلیفہ مستعصم بااللہ کے لئے دعوت کا اہتمام کیا لیکن طشتریوں اور خوانچوں میں کھانے کی چیزوں کی بجائے اسے سونا، چاندی اور جواہرات سے بھر کر خلیفہ کے سامنے پیش کیا۔ ہلاکو خان نے خلیفہ سے کہا کہ کھاؤ۔ خلیفہ نے ان کو کھانے سے اپنی بے بسی ظاہر کرنے کے بعد ہلاکو خان نے اس سے پوچھا کہ تم ان جواہرات کو نہیں کھا سکتے تو تم نے اسے اتنی حفاظت اور اہتمام سے کیوں رکھا ہوا تھا؟ تلوار سے ان صندوقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا جو زر و جواہرات سے لبریز تھے کہ تم نے ان سے اپنی فوج کے لیے دہانِ تیر کیوں نہیں بنوائے اور تمام جواہرات اور زیورات اپنے سپاہیوں میں کیوں تقسیم نہ کئے اور باہر نکل کر میرے ساتھ مقابلے کی کوشش کیوں نہ کی؟ خلیفہ نے اپنی بے بسی ظاہر کی اور کہا کہ مشیت ایزدی یہی تھی۔ ہلاکو خان نے جواب دیا کہ اب ہم آپ کے ساتھ جو سلوک کرنے والے ہیں اسے بھی مشیت الٰہی سمجھنا۔ ہلاکو خان نے ضعیف العمر خلیفہ کو قالین میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا کر کچل ڈالا۔فتدبر۔
