اِک تلاش نا مکمل سی ::‌تحریر: انعم ذوالفقار

انسان ایک مسافر ہے،حالات کے باعث جہاں زندگی کی ر یل پیل رُک چکی ہے،وہیں ایک مسافرسفر کی تھکاوٹ سے چور، بلندوبالا چوٹی پر خیمہ زن سوچوں کی وادی میں بھٹکے ہاتھ میں قلم،کاغذ تھامے یِادماضی کی پٹری پر دوڑتی سوچوں کے زیرِاثر سفرکی منظر کشی کرتے ہوئے اپنی تلاش کو قلم بندکرنے کے خیال میں گُم ہے۔منزل کی تلاش میں نکلے اس مسافر کوہوش سنبھالے ایک دہائی آن پہنچی ہے۔جس کاسدِباب یہ ہے کہ اس مسافر نے منزل کی تلاش میں کیا کیا نا دیکھا،خدا کی تلاش میں مسجد، مندر، گرجا میں جاتے عقیدت مندوں، کچھ عبادت گزاروں کو دیکھا، تو کچھ بے ایمانوں کو خدا سے انکاری دیکھا،کہیں دلوں میں بسے خدا کو ڈھونڈتے درویشوں کو دیکھا ہے۔رہنمائی کی تلاش میں دینداروں کو دیکھا،تو فرقوں میں بھٹکے مسلمانوں کو لڑتے دیکھا، کبھی اختلاف رائے کی بھینٹ چڑھتے مسلمانوں کو اک دوسرے کو کافرکہتے دیکھاہے۔
اک جنت نظیر وادی میں جنت کی حوروں کو غیر محفوظ،توکبھی جوانی میں بھائی کی موت پر سرِماتم بچھائے دیکھاہے،تو کہیں صنف نازک کو سڑکوں پر حقوق کا لبادہ اوڑھے ہوئے تماشوں کو سر بازار دیکھاہے۔کہیں مایوسی کے بادل کہیں اُمید کی کرن میں چڑھتے سورج کو ہر بار دیکھا ہے۔
کہیں اقوام متحدہ میں بیٹھے انصاف کے الم برداروں کوآزادی کا نعرہ لگاتے،گونجتے،گرجتے،برستے فنکاروں کو دیکھا،اس گھماگھمی کے عالم میں عراق، فلسطین،کشمیر کو جلتے، بلکتے، سسکتے اور تڑپتے دیکھاہے۔گویااس مسافر نے قیامت کی نشانیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔
اس ارض پاک کی مٹی میں شہیدوں کا لہو بہتے،تو کہیں خون کی ہولی کھیلتے کچھ عناصر کودیکھا۔ نفس سے لڑتے کئی محاذوں پر جانبازوں کو دیکھا، توکچھ بے لگام خواہشوں کی قید میں جکڑے انسان کو نفس کا غلام دیکھا۔ لوگوں کو منزل کی جانب رواں دواں دیکھتے ہوئے نفسانفسی کے عالم میں خوابوں کا بوجھ اٹھائے ہر انسان کو خود غرضی،انا پرستی، اور بے حسی کی انتہا پر دیکھاہے۔ جہالت کے گھٹا توپ اندھیرے میں علم کی شمع جلاتے کچھ رہبروں کو دیکھاہے۔ کہیں علم والوں میں جہالت، کہیں تو ان پڑھوں میں عاجزی کو دیکھا ہے۔
اک بستی سے گزر ہواتوکچھ بھٹکے ہوؤں کو لاعلاج دیکھا، تو کچھ گرتے،سمبھلتے انسانوں کو کامیاب دیکھا ہے۔
اک مقام پر پہنچے تو رنگینیوں میں کھوئے،طاقت کے نشے کا اندھا دھند استعمال کرتے انسانیت کی دھجیاں اڑاتے کچھ عیاش پرست نوابوں کو دیکھنے کا اتفاق ہواہے۔نوجوانوں کی حالت زار کی تصویرکیسے بیاں کروں کہ اپنے سامنے ہوتا شب و روز تماشہ دیکھاہے،کبھی بدلتے ہوئے حالات کے شورشرابے میں روایتوں کو دفن ہوتے دیکھا،تو کہیں رواجوں میں پستے کچھ گھرانوں کو دیکھاہے۔
انسانیت کی تلاش میں نکلناتھا کہ انسانیت سے دست بردار ہوتے میں نے ہردوسرے انسان کو دیکھا ہے۔صحیح،غلط میں فرق کو ڈھونڈتے، میں نے انسان کو شیطان کے چنگل میں پھنسا،تو کبھی فرشتہ صفت دیکھا، نیز کبھی انسان کو انسان،تو کبھی حیوان سے بدتر دیکھاہے،ہاں میں نے انسانوں کے مسیحا کو سرِبازار بھیک مانگتے دیکھاہے۔احساس کہاں تھا؟میلے دلوں کوظاہری چمک دھمک میں منافقت کی انتہا پر دیکھا ہے۔کہیں بارش سے لُطف اندوز ہوتے پکے مکاں کے مکینوں کو دیکھا،تو کہیں کچے مکان کے باسیوں کو دربدر دیکھا ہے۔
برسراقتدار حکمرانوں کو عوام کا خون نچوڑتے دیکھا،تو کہیں مدینہ جیسی ریاست کے خواب،کبھی روٹی، کپڑا مکان کا نعرہ، کبھی بددیانتی کا عکس، تو کبھی ترقی پر گامزن ہے یہ ملک جیسے تسلی بخش سہا روں پر، افراتفری کے عالم میں اس دیس کے باشندوں کو کبھی بے زار تو کبھی بے یارومددگار دیکھا ہے۔ کچھ بینائی والوں کو اندھوں کے روبرو کھڑا پایا ہے۔کہیں سڑک کنارے فقیر ہاتھ پھیلائے بیٹھے تھے،جب قریب سے گزرتے امیروں کو امیری کی خاک اڑاتے دیکھا ہے۔کتنا تلخ تھا نہ یہ سفر کہ مسافر کے الفاظ چیخ چیخ کرلاشعوری دنیا کو کچھ بتانا چاہتے ہیں کہ اس بھول بھلیا میں کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے۔دکھا نہ سکیں گے میرے الفاظ بھی کہ کن کن ہوتے ہنگاموں کو صبح و شام دیکھا ہے۔
البتہ اس دیکھا دیکھی کے عالم میں کچھ دیکھنا ابھی باقی ہے۔نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے، شاعر کی اس بات سے مسافر کی اک امید باقی ہے۔ انسانیت کی بقاء، قائد کے خواب کی تعبیر،اقبال کے شاہین کی اڑان،کچھ سپاہیوں کا ابھی جنون،مسلمانوں کا اتحاد، مدینہ کی ریاست کا قیام ابھی یہ سب تودیکھنا باقی ہے۔ ہاں ابھی باقی ہے،اک بہن کا گھر کو لوٹ آنا،اک ماں کی آہو پکار پر میرے رب کا جواب باقی ہے، ابھی حوا کی بیٹی کی عظمت کی تلاش باقی ہے۔ اک رہنما، اک انسا ن اوراک مومن، بے آواز کی صداکی تلاش باقی ہے۔
کچھ مظلوموں کا ابھی انصاف باقی ہے۔
کچھ فرعونوں کا ابھی انتقام باقی ہے۔
اے نفس کے غلام! مٹی میں دفن بے جان کو دیکھ تو سہی،کہا ں تک تیری سانس باقی ہے۔کچھ سفر، کچھ تلاش،یاشاید مزید تجربات کو اک دہائی اس مسافر کی ابھی باقی ہے۔کچھ خوشگوار،کچھ تلخ لمحات کی منظر کشی باقی ہے۔میرے قلم کی کچھ سیاہی ابھی باقی ہے۔
اے مسافر! یہ تو سفر کا آغاز ہے ابھی اس کی انتہا باقی ہے۔ابھی زندگی کی آخری سانس باقی ہے۔
ابھی دیکھا ہی کیا ہے اے دیکھنے والے! باندھ لے سامانِ سفر کیونکہ مقصدِ حیات کی ابھی تلاش باقی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں