مسلمان زوال کا شکار، آخر کیوں؟ :: تحریر:سید صاءم شاہ گردیزی

کچه دن پہلے ایک خبر سننے میں آئی کہ گوگل نے اپنے نقشے پر سے فلسطین کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا ہے جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں نے غم و غصے کا اظہار کیا.اور گوگل کے منتظمین کو برا بهلا کہا اور ان کو بد دعائیں دیں.لیکن کبهی مسلمانوں نے یہ بات نہیں سوچی کہ دنیا میں آجکل مسلمان ہی کیوں صرف زوال کا شکار ہیں؟ہر جگہ مسلمانوں کے حقوق کو ہی کیوں روندا جاتا ہے اور ان کساتھ ہی کیوں ناروا سلوک کیا جاتا ہے؟ اور ظلم و بربریت کی بجلیاں مسلمانوں پر ہی کیوں گرائی جاتی ہیں؟کشمیر پر ہندوستان برسوں سے قابض ہے.فلسطین پر اسرائیل برسوں سے قابض ہے..کیا وجہ ہے کہ مسلمان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں؟
اس سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم آرام پسند اور انتہائی کاہل ہیں. کشمیریوں پر جب ظلم ڈهایا جاتا ہے تو ہم ملامتیں تو بڑی کرتے ہیں مگر عملی طور پر ہم فی الحال کچھ نہیں کر سکتے اور اسکی واحد وجہ ہماری کاہلی اور حقیقی اسلامی تعلیمات سے دوری ہے.ہندوستان انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہے. تقریباً دنیا کی تمام آئی ٹی کی بڑی کمپنیوں میں ہندوستانی کثیر تعداد میں بہترین عہدوں پر فائز ہیں.ہندوستانیوں نے چاند کے بعد مریخ تک رسائی حاصل کی اور کائنات کے بارے میں نئی چیزیں سیکهیں اور ہم نے ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانا سیکهیں. کرونا کی وباء کے دوران جب غیر مسلم آنلائن ایجوکیشن سے استفادہ حاصل کر رہے تهے اور علم کے سمندر سے اپنے لبوں کی تشنگی مٹا رہے تهے تو ہم نے آنلائن کلاسز کے دوران اپنے معلموں کو بے جا تنگ کیا اور انکا مذاق اڑایا.ہمارے ملک میں علم کی قدر تو بہت ہی نایاب لوگوں کو ہے.ہمارے ملک میں کرکٹرز اور اداکاروں کو عزت شہرت، اور دولت بهی دی جاتی ہے اور بے جا انکی تعریفوں کے قصیدے بهی باندهے جاتے ہیں.کسی کرکٹر یا پهر اداکار کو چهینک بهی آئے تو یہ خبر پورے ملک میں جنگل میں آگ کی طرح پهیل جاتی ہے اور پورا ملک یہ سوچنے میں لگ جاتا ہے کہ آخر اسے چهینک کیوں آئی؟اور ہمارے اساتذہ اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے کوشاں سائنسدان،ڈاکٹرز اور انجینئرز انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں.انکے لیے کوئی تعریف کا ایک جملہ تک نہیں بولتا.اگر یہی سب چلتا رہا تو ہمارے نوجوان صرف کرکٹر اور اداکار ہی بن پائیں گے اور غیر مسلم دیکهتے ہی دیکهتے پوری دنیا پر قابض ہو چکے ہوں گے (خیر اگر دیکها جائے تو وہ آج بهی پوری دنیا پر قابض ہی ہیں).
ہم صرف نام کے مسلمان ہیں.ہمارے لیے قرآن مجید رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے پر ہم اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے.قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ “اور تم کائنات کو مسخر کرو” یہاں “مسخر” کرنے سے مراد علم حاصل کرنا اور کائنات کے مظاہر پر تحقیق کرنا ہے مگر یہ سب ہم مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم کر رہے ہیں.ہم مسلمان تو صرف ان کی پهینکی ہوئی چیزیں استعمال کر رہے ہیں.اسلام حقوق العباد کا درس دیتا ہے۔ مگر مسلمانوں کے ملکوں میں حقوق العباد نام کی کوئی چیز تک نہیں.اس ملک میں مسلمان دو لاکھ کا بیل قربانی کے لیے تو لے گا اور اسکے ساته ویڈیو بنا کر ٹک ٹاک پر تو ضرور اپلوڈ کرے گا مگر اسکا مسلمان بهائی غربت کی وجہ سے اپنے تین بچوں سمیت زہر کها لیتا ہے لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑتا. اسے تو دنیا کو اپنی تونگری دکهانی ہے نا!میں حیران ہوں کہ ہم مسلمان قیامت کے دن خدا کے حضور کیسے پیش ہوں گے.جب حقوق العباد کی بازپرس ہوئی تو ہم اللہ قادرمطلق کی ذات کو کیا جواب دیں گے.ہم مسلمانوں کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص چارپائی پر لیٹا دنیا فتح کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے اور بس سوچ ہی رہا ہے عملاًکچھ نہیں کر رہا اور خدا سے دعا کرتا ہے کہ وہ صبح جب سونے کے بعد اٹهے تو پوری دنیا میں اسکی سلطنت قائم ہو.مگر جب صبح ہوتی ہے اور وہ ابهی نیند کے آغوش میں ہی ہوتا ہے کہ اسے خبر سنائی دیتی ہے کہ فلاں شخص نے اپنی طاقت کے بل پر اسکی سب زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے.اور اسکو اسی کی زمین سے بے دخل کر دیا ہے. اب وہ خدا کی ذات سے شکوے و شکایات کرتا ہے مگر اس احمق کو یہ نہیں معلوم کہ دنیا میں اپنی سلطنت قائم کرنے کے لیے سکندر اعظم بننا پڑتا ہے اور خضر سے رہنمائی لینی پڑتی ہے.”کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی” کے معیار پر پورا اترنا پڑتا ہے.ہم مسلمان بهی اسی طرح خدا سے دعائیں ہی کر رہے ہیں کہ فلسطین اور کشمیر غیر مسلموں سے آزاد ہو مگر حقیقتاً ہم سب اس قابل ہی نہیں کہ امت مسلمہ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرا سکیں.ہمیں قابل بننا ہو گا اسلامی تعلیمات کی پیروی کرنی ہو گی. ہزاروں کی تعداد میں مسلمان جب نماز میں قعود کے دوران “اشهد ان لا الہ الا اللہ” پڑهتے ہیں اپنی شہادت کی انگلی اٹهاتے ہیں تو ان میں ہم آہنگی ہوتی ہے جب یہی ہم آہنگی عملی زندگی میں بهی مسلمانوں کے درمیان ہو گی اور مسلمان صرف مسلمان ہوں گے اور کچھ نہیں تبهی جا کر ہم غلامی کی زنجیروں سے نکل سکتے ہیں اور فلسطین اور کشمیر کے مظلوم تبهی جا کر آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں گے ۔ اللہ قادرمطلق ہمیں حقیقی معنوں میں انسان اور مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے .آمین..ثم آمین..!
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

اپنا تبصرہ بھیجیں