خود کشی : تحریر: رعنا اختر

جب کوئی انسان مرتا ہے تو اس کی موت پر دکھ ہوتا ہے لیکن جب کوئی انسان خودکشی کرتا ہے تو اس کی موت پر دکھ کے ساتھ ساتھ ذہن میں سوال اٹھتے ہیں ۔ بے چینی اور بے سکونی بڑھتی ہیں ۔ زہن منتشر ہو کے رہ جاتا ہےکہ آخر کونسی وجہ تھی جو اسے اس مقام پہ لے آئی ک ہاس نے خود کشی کو گلے لگا لیا۔ اس کے عزیز پچھتاوے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کاش وہ اسے بچا لیتے ،کاش وہ اسے اس حرکت سے روک لیتے ۔ معاشرہ کھوج میں لگ جاتا ہے ۔ اسکی خودکشی سوالیہ نشان بن کے رہ جاتی ہے ۔ ہر ایک کے ذہن میں صرف ایک سوال ہوتا ہے ، کیوں ؟ ہمارے معاشرے میںخود کشی کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے ۔ جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔اس کیسب سے بڑی وجہ تنہائی ہے ۔ انسان تن تنہا اپنی زندگی میں آنے والے مسائل کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ کبھی انسان کو دنیاوی مسائل اور کبھی انسان کو انسانوں کے رویے تھکا دیتے ہیں ۔ ہر چیز کی سٹوریج کی ایک لمٹ ہوتی ہے جونہی ڈیٹا بڑھ جاتا ہے تو اس سٹوریج کو ہم کسی دوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں ۔اسی طرح انسان بھی چاہتا ہے کہ اسے بھی اپنے دل کا حال کہنے کے لیے ایک ایسا انسان چاہیے جو اس کے ہر دکھ درد کو اپنے سینے میں چھپاکر اس کو دلاسے اور ہمت دلائےتاکہ وہ اپنی زندگی کو پرسکون طریقے سے گزار سکے ۔کچھ لوگ ایڈجسٹ کر لیتے ہیں لیکن کچھ کے اندر زخم بننے لگتے ہیں بہت سی باتیں کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لی جاتی ہیں ۔ یہ کڑوے گھونٹ نگل تو لیے جاتے ہیں لیکن یہی گھونٹ قطرہ قطرہ زہر بننےلگتے ہیںاور اندر سے گھلتے ج اتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ ، ہم اور ہمارے ہاتھ اور زبان زہریلے بن چکے ہیں ۔ کبھی آپ غور کریں پچھلے معاشرے کے لوگوںمیں اور اب کے لوگوں میں کوئی موازنہ ہی نہیں رہا۔ اب سب کے سب زہریلے بن چکے ہیں ۔ ہمصرف موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہکب موقعملے اور ہم سامنے والی جڑیں کاٹ کر اکھاڑ پھینکیں ۔آجکل مخلص انسان ملنا بہت مشکل ہے ۔ جس سے انسان اپنے دل کی ساری باتیں کہہ سکے ۔ جس کے کندھے پہ سر رکھ کر رو سکیں۔ زیادہ تر ہوتا کیا ہے لوگ پہلے ہماری کمزوریاں جانتے ہیں،خاموشی سے پھر ہماری دکھتی رگ پہ چھری چلاتے ہیں ۔ آج کا انسان جدید دور اور سہولیات کے ہونے کے باوجود تنہائی کا شکار ہے ۔ اور یہ تنہائی انسان کو خودکشی کی سیڑھی پہ لے جاتی ہے ۔ یہاں آ کر انسان یا تو خودکشی کر کے موت کو گلے لگا لیتا ہے یا پھر زندگی سے عدم دلچسپی برتنے لگتا ہے ۔زیادہ تر انساندماغی خرابی کی وجہ سے خودکشی کرتا ہے ۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو بیماری کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں ۔انسان کے ان گنت مسائل ہیں ۔ جس سے وہ ہر روز نبردآزما ہوتا ہے کچھ مسائل کے حل کے لیے انسان بے بس ہو جاتا ہے ۔ جسکی وہ سے وہ خودکشی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ مستقل بیمار رہنے والے لوگ اپنی بیماری سے تنگ آ کر خود کشی کو گلے لگا لیتے ہیں کیونکہ بیماری انسان کے دماغی توازن کو درہم برہمکر دیتی ہے۔ انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مجروح ہو جاتی ہے ۔ انسان کو اچھائی اور برائی کا فیصلہ کرنے میں دقت پیش آنے لگتی ہے ۔ دماغ اپنا توازن کھو دیتا ہےاس طرح وہ اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے ۔مردوں میں عورتوں کی نسبت بڑھتی عمر کے ساتھ خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ کیونہ مرد کو بہت سی زمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے ۔ عورتوں میں پچیس سال کی عمر کے بعد خودکشی کا رجحان توہمتخًابیرقسیاہ فام کے لحاظ سے سفید فام لوگ زیادہ خودکشی کرتے ہیں ۔ خودکشی کے بارے مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہیں ۔کچھ لوگ خودکشی کو بہادرانہ فعل گردانتے ہیں اور کچھ لوگ بزدلانہ ۔خودکشی کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ لوگ زرا زرا سی بات پہ خودکشی کی طرف چل پڑتے ہیں ۔ جیسا کے بیروزگاری ، فرسٹ پوزیشن کا نہ آنا ، محبت میں ناکامی ، پسند کی شادی کا نہ ہونا ، اولاد کا نہ ہونا ، سسرال میں طعنے ، شوہر کا بیوی میں عدم دلچسپی ، ازدواجی زندگی کے مسائل ، دوستوں کا مخلص نہ ہونا ، معاشی زندگی میں ناکامی ، نوکری کا چلے جانا ، نوکری کا نہ ملنا ، گھر میں بہن بھائیوں میں مساوانہ سلوک کا نہ ہونا ، ماں باپ کو اولاد کو اگنور کرنا ، عدم برداشت ، بے صبرا پن وغیرہ ۔جاپان میں خودکشی کو ایک بہادرانہ فعل قرار دیا گیا ہے اور لوگ زرا زرا سی بات خود کو ہلاک کر لیتے ہیں ۔ خودکشی پر محتلف مذہب میں محتلف خیالات پائے جاتے ہیں ۔یہودیت میں خودکشی کو ناپسندیدہ فعل مانا جاتا ہے خودکشی کرنے والے افراد کوالگ قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے ۔ اور ان کی ماتمی رسومات بھی نہیں ہوتیں۔ یہودیت میں خودکشی کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔محتلف بہانوں سے خودکشی کرنے والے فرد کو بیمار کہلوایا جاتا ہے ۔ ایسی بہت سی ترکیبیں اپنائی جاتی ہیں تاکہ خودکشی ثابت نہ ہو سکے ۔انجیل خودکشی کی مذمت نہیں کرتا ہے کیونکہ انجیل میں ایسے لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے خودکشی کی ہے ۔کاتھولک کلیسیا میں خودکشی کرنا گناہ ہے لیکن اس جرم کی شدت اور اس کا گناہ حالات کے مدنظر مختلف ہوتا ہے پہلے پہل کاتھولک کلیسیاخودکشی کرنے والے فرد کی لاش کو دفنانے سے منع کرتا تھا لیکن اب نہیں ۔اسلام کیونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے الل نے قرآن کے زریعے انسان کی رہنمائی فرمائی ہے اسے زندگی گزارنے کے طریقے بتائے ہیں ۔اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ جبکہ اپنی ذات پہ زرا سا ظلم کرنے ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ “اور تم اپنی جانیں قتل نہ کرو ، بیشک الل تم پہ مہربان ہے ” ہمیں خودکشی کاسدباب کرنا چاہیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی جس سے ہمارے معاشرے میں خودکشی کی واردات کو کم سے کم کیا جا سکے ۔ ہمیں اپنوں کے ساتھ زہنی ہم آہنگی اور دلی لگاؤ پیدا کرنا ہے ۔ ان کا خیال رکھنا ہے ان کو سمجھنا ہے ، ان سے محبت اور ان کا احترام کرنا ہے۔ ہمیں اپنے سوشل میڈیا کے دوستوں کی بجائے اپنے حقیقی ساتھیوں کے ساتھ دینا ہیں۔۔ محبت کو جا بجا ڈھونڈنے کی بجائے اپنے گھر اپنے خونی رشتوں میں تلاش کرنا ہے اس کے لیے نہ تو ہمیں اپنا بھیس بدلنا ہو گا نہ ہمیں اچھا بننے کی ضرورت ہو گی ۔ ہم جیسے وہ ہمیں ویسے ہی قبول کریں گے ۔ گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک دوسرا کا اعتماد جیتنا ہے تاکہ گھر کے ہر فرد کو اپنی احساسات کو ظاہر کرنے کی مکمل آزادی ہو ۔ تاکہ اسے اپنی باتیں شیئرکرنے کے لیے کبھی کسی دوسرے فرد کی ضرورت نہ پڑے ۔ناکامیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہے ۔ کامیابی پہ حسد کرنے کی بجائے رشک کے پہلو کو اپنانا ہے ۔
قرآنی احکامات کے اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنانا ہے ۔ ہماری جان پہ ہم سے زیادہ ہمارے رب کا حق ہے ۔ یہ ہمارے پاس الل کی دی ہوئی امانت ہے ۔ اور ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اس امانت کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو نیک کاموں میں صرف کریں ۔ تاکہ آخرت کے دن الل کی بارگاہ میں کوئی شرمندگی نہ ہو ۔ مثبت سوچیں اور مثبت رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں