بچوں کی تربیت :: تحریر : منصور احمد خاوری

بچوں کی تربیت ہر دور کی طرح اج بھی مسلمان والدین کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اس چیلنچ کا سامنا کرنے کےلیے ایک عورت کا تعلیم یافتہ یعنی عظیم ماں کا ہونا ایک ضروری امر ہے ۔ اللہ تعالی نے والدین اور بالخصوص ماں کو جو اعزاز بخشا ہے۔ وہ دین اسلام کے سوا دنیا کا کوئی مذہب اور کوئی بھی تمدن عطا نہیں کرسکا۔ جہاں اس نظام کائنات میں ہر ذی روح کا ایک شعبہ مقرر ہے وہی پر اللہ تعالی نے عورت کو انتہائی حساس اور ذمہ دار شعبہ شعبہ تخليق سے وابستہ کیا ہے۔ بچوں کی تربیت میں والدین کو بہت سے ادوار اور بے شمار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ والدین کی ذمہ داری اسی روز سے شروع ہوجاتی ہے جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں۔

بچوں کی تربیت کا پہلا مرحلہ زوجین کے باہمی تعلق سے شروع ہوتا ہے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کےلیے میاں بیوی کا باہمی تعلق مضبوط اور محبت سے بھرا ہونا چاہیے۔ کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرنا چاہیے جس سے میاں بیوی کے دور ہونے کا خدشہ ہو۔اور نیک اولاد کےلیے ہمہ وقت اللہ تعالی سے دعا گو ہونا چاہیے۔

تربیت کا دوسرا مرحلہ پیداٸش کا ہوتا ہے۔ عورت کےلیے بچے کی پیداٸش سے پہلے کا زمانہ ایک سخت تکليف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ ایک سچی مسلمان عورت کو یہ وقت مصیبت سمجھ کر نہیں گزارنا چاہیے۔ پہلے اس لیے مصيبت سمجھ کر نہیں گزارنا چاہیے کیونکہ اسں زمانے میں وہ اللہ تعالی کی خصوصی نظر رحمت ہوتی ہے اور دوسرا اس لیے کہ ماں کی ذہنی تناٶ کا اثر بچے پر بھی ہوسکتا ہے۔ حملہ عورت کو اپنا زیادہ تر وقت اللہ تعالی کو یاد کرنے میں گزارنا چاہیے جو جسمانی روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ اس دوران بچہ صرف ماں سے خوراک ہی نہیں بلکہ بیماری، بے چینی اور ذہنی تناٶ کا بھی اس پر اثر ہوتا ہے ۔ اس لیے ماں کو دلی خوشی اور سکون کےلیے اللہ تعالی سے رجوع کرنا چاہیے۔ مختلف ساٸنسی مطالعوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ماں کی مصروفيات ، عادات و اطوار سے جنین اثر لیتا ہے۔ ماں بچہ کو جو بھی بنانا چاہتی ہے ماں کو اسی ماحول میں جا کر اسی طرف اپنی توجہ دینی چاہیے۔ ماں کیا سوچتی ہے ؟کیا کرتی ہے ؟ کیا احساسات اور جذبات ہے ماں کی بچے کےلیے ؟ کسں ماحول میں رہتی ہے وہ ؟ اپنے بچے کےلیے کیا چاہتی ہے وہ ؟ ان تمام تر خیالات اور عادات و اطوار کا بچے پر اثر ہوتا ہے۔ اس لیے اس دوران ماں کو خوراک کی طرح پہلے سے زیادہ روحانی غذا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

تیسرا مرحلہ ولادت کی ابتدائی چند سال جو بچے کی تربیت کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیۓ جاتے ہیں۔ پہلے لوگ یہ سمجهتے تھے کے بچے کی مزاج اور تبیت میں موروثاتی اثرات شامل ہوتے ہیں لیکن اب جدید ساٸنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ بچے کی ابتدائی ماحول اور ماں کی توجہ دو نہایت اہم چیزیں ہیں جو بچے کی زندگی اور کردار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر شروع کی دو تین سالوں میں بچے کو والدین خصوصی ماں کی بھر توجہ، شفقت، بہترین تعلیم و تربیت اور ایک باہمی تعلق پیدا نہ ہوجائیں۔

تو اس سے بچے میں ذہنی پراگندگی اور جارحانہ پن پیدا ہوتا ہے جو بچے کی زندگی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ بچوں پر ہاتھ ہر گز نہیں اٹھانا چاہیے کیونکہ بچوں پر ہاتھ وہی اٹھاتے ہیں جو زبان سے سمجھانے کی صلاحيت نہیں رکھتے۔ نصیحت جتنی نرمی سے کی جاٸے اتنا ہی اثر کرتی ہے۔ لیکن بعض مواقع پر جب بات باتوں سے نکل جائے تو پھر ہاتھ کا استعمال بھی طریقے سے کرنا چاہیے جس سے بات سمجھ میں اسکے نہ کہ جانوروں کی طرح سلوک کیا جائیں جس سے بچہ احساس کم تری اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجا تا ہے۔ والدین کو ہر وقت بچے پر نظر رکھنا چاہیے اور اللہ تعالی کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق بچے کی تربیت کرنی چاہیے

جس میں سب سے پہلے نماز کی پابندی کرانا ہے اگر گھر کا ماحول رکوع، سجود ، اذان اور نماز سے اشنا ہو تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا حصہ بنا دیتا ہے جو زندگی اور اخرت کی کاميابی ہے اسی طرح اللہ سے محبت، بڑوں کا احترام، شکرگزاری کے جذبات، دوسروں کے احساسات، حیا۶ کرنے کی پابندی اور شعور دلانے والدین کی ذمہ داری ہے لیکن یہ سب تب ممکن ہے جب والدین خصوصاً ماں خود ان چیزوں کی پابند ہو، اور خود اس پر عمل پیرا ہو، والدین کی اخری اور سب سے بڑی ذمہ داری بچوں کی مناسب وقت پر شادی کرنی ہے جو ہر قسم کی طمع، حرص، اور دخل سے پاک ہو۔ تاکہ بچہ ہر قسم کے گناہوں سے دور رہے اور پھر وہی تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ بچہ خود بھی بہترین زندگی گزارے، والدین کا بھی سہارا بنیں اور اپنی انے والی نسل کی بھی بہترین تربيت کریں۔ جو بہترین معاشرے کی بنیاد بن کر بہترین معاشرے کی عکاسی کرسکیں

اپنا تبصرہ بھیجیں