0

ہم قوم ہیں اُمت نہیں : تحریر: عرفان چانڈیو

بچپن میں اردوکی کتاب میں ایک کہانی کافی پڑھائی گئی ۔کہانی کچھ یوںتھی کہ ایک کسان کے چار بیٹے تھے جو آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بوڑھا کسان پریشان تھا کہ کیسے اِن کے درمیان اتحاد و اتفاق کو پیدا کیا جائے ۔ ایک دن اپنے بیٹوں کو بُلا کر کہنے لگا کہ یہ لکڑیوں کا گٹھا جو تمھارے سامنے موجود ہے، اس کو باری باری سارے بھائی جا کر توڑو۔ سب نے باری باری جا کر زور آزمائی کی مگر کہاں وہ لکڑیوں کا گٹھا ایک بندے سے ٹوٹ سکتا تھا۔ بعدازاں بوڑھے باپ نے کہا اب سب مل کر اس لکڑیوں کے گھٹے کو توڑو تو کہاں وہ ایک گٹھا اور کہاں یہ چار بھائی ، گٹھا تو ٹوٹنا ہی تھا۔ بچپن میں بس یہی سمجھ آتی تھی کہ بندے زیادہ ہوں تو لکڑیوں کا گٹھا جلدی ٹوٹتا ہے یا توڑا جا سکتا ہے۔ مگر جب بڑے ہوئے، کچھ شعور آیا، سمجھ آئی کہ قومیں جب اُمت بنتی ہیں تو کفر کا گٹھا توڑا جا سکتا ہے۔
اس اتحاد و اتفاق کو مدنظر رکھتے ہوئے، دورِحاضر کے مسلمانوں نے بھی مسلم ممالک کے فوجی اتحاد اور تعاون اسلامی جیسی تنظیموں کو تشکیل دیا۔ جن کا بظاہرمقصد مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنا تھا۔ ہر سال ان تنظیموں کی بیٹھک بھی ہوتی ہے اور کھانے پینے کے علاوہ امید کی جا سکتی ہے مسلمانوں کے مسائل پربھی غوروفکر کیا جاتا ہوگا۔ مگر مسئلہ کشمیر ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔ یا تو کشمیر میں موجود لوگ جن پر ظلم ہو رہا وہ مسلمان نہیں ہیں یا پھر یہ اتحاد نہیں ہے ۔یا پھر ان تنظیموں کا کام صرف غیر مسلموں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ کہانی میں موجود چار بھائیوں کی طرح ہم ساتھ تو ہیں مگر اتفاق و اتحاد ہم میں کوئی نہیں۔
حَسین وادیاں، بلند و بالا برف پوش پہاڑ، پھلوں سے لدے باغات،جن کے بیچ رنگ برنگے پرندوں کے مسحور کُن گیت، سر سبز لہلہاتے کھیت، یہ ہے میرا کشمیر، آپ کا کشمیر، ہم سب کا کشمیر۔ یہ سب باتیں سننے اور لکھنے میں بہت اچھی لگتی ہیں۔ اصل کشمیر تو اب اُس ماں کی مانند ہے جس کے کئی بیٹے ہونے کے باوجود وہ ماں مظلوم اور بے اولاد ہے۔
کشمیر کا مسئلہ کوئی آج سے نہیں 1948 سے چل رہا ہے مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ امتِ مسلمہ نے کیا حکمت عملی تیار کی؟ کیا کشمیر میں بھی فلسطین کی طرح کوئی سازش چلائی جا رہی ہے؟ کیا کشمیر میں فلسطینی ماڈل کے مطابق کام ہو رہا ہے ؟
پاکستان شروع سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے کہ پلیز کشمیر کا مسئلہ حل کر دیں۔اس کے نتیجے میں سینکڑوں قراردادیں پیش بھی کی گئیں اور اس وقت اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے سامنے سینکڑوں قراردادیں پڑی ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔
رمضان کے پہلے عشرے میں ہی کشمیر میں 15 مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ جہاں دنیا آج کورونا کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنے سے قاصر ہے کشمیری پچھلے کتنے مہینوں سے گھر میں قید ہیں مگر ہم خاموش ہیں ۔ہم نے اپنے لب سی لیے ہیں ۔کیونکہ وہ کشمیری ہیں ۔اور آس پاس کے مسلمان :کوئی پاکستانی ، کوئی عربی، کوئی ایرانی اور کوئی ترکستانی ہے۔
انڈین ایکٹر کے مرنے کی خبر کے بعد اگر کشمیر کے کسی نوجوان کی شہادت کی خبر مسلم ممالک تک پہنچ بھی جائے تو سب نے میرے خیال میں پاکستانی عوام کی طرح ْشہادت ایک عظیم درجہ ہےٗ کہہ کر خاموشی اختیار کر لی ہو گی۔کیونکہ علامہ اقبال کے بعد کسی نے امت کی بات ہی نہیں کی اور ہم قوم ہی رہ گئے۔ امت آج تک نہ بن سکے۔ اگر ہم امت ہوتے تو 57 مسلم ممالک ہونے کے باوجود رمضان کی پہلی افطاری میں کسی ماں کو اس کے بیٹے کی لاش نہ ملتی ۔اگر ہم امت ہوتے تو فلسطینی بچہ جاتے وقت یہ نہ کہتا کہ میں خدا سے شکایت کروں گا۔ ہمارے اندر وہ درد نہیں جو کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لیے ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہم قوم ہیں، امت نہیں۔ جس دن ہم امت بن جائیں گے تو کسی ماں کو رمضان کی پہلی افطاری میں اُس کے بیٹے کی لاش نہیں ملے گی اور نہ فلسطینی بچہ خدا سے جا کر شکایت کرے گا۔ جس دن ہم امت بن گئے اُس وقت غزوہ بدر کی طرح کافر جتنی بھی تعداد اور طاقت میں ہوئے فتح مسلم امت کی ہی ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں