0

کشتی کا چپو :: تحریر : ازکیٰ خالد

”انسان اس دنیا میں اکیلا آیا ہے، اور اکیلےہی جانا ہے۔“
ہم نےبارہا لوگوں کو کہتے سنا ہے،نہ صرف یہ،بلکہ ہم نے کئی دفعہ ایسی باتیں ان رکشوں کے پیچھے لکھی دیکھی ہیں جن کی خستہ حالت شاید اپنے مالک کی کوئی مالی امداد تو نہ کر سکےمگر اس کے ماضی کے بارے میں خاصی راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مولوی حضرات زیادہ تر یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ہم نے قبر میں اکیلے ہی جانا ہے۔ہمارے خیال میں انسان کو اس بات کا یقين، کہ موت کے بعد تو وہ خود سے بھی آخری ملاقات نہیں کر پائے گا،سےزیادہ اس بات کی سمجھ ہونی لازم ہے کہ پیدا ہو نے کے بعد صرف اسے لفظ بولنے سکھائے جاتے ہیں ،ان سیکھے ہوئے لفظوں کو کہاں اور کیسے بولنا ہے، یہ اُس نے خود طے کرنا ہوتا ہے۔
شاید ہماری زندگی اس دن سے آسان ہو جائے گی جس دن ہم مرنے کے لیے جینے لگیں گے۔ ہمیں تمام عمر کسی نہ کسی سے گلہ رہتاہی ہے، پھر چاہے ہم سامنے والے پہ ظاہر کریں یا نہ کریں۔اس میں قصور ہماری یا آپ کی زبان کا نہیں، بلکہ اس اصول کا ہے کہ جب بھی انسان اپنی فطرت کے بچھو کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتا ہے،تو دوسرے کی ذات کے جگنو بھی سانپ نظر آتے ہیں۔مختصر یہ کہ ہر انسان اپنی مخصوص فطرت اور مزاج کے مطابق چیزوں کو دیکھتا اور ان کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس کی زبان میں مٹھاس ہو نہ ہو مگر اس کی فطرت کی تلخی ہمیشہ اسی کے مطابق اپنا اثر دکھاتی ہے۔کسی شخص کے مطابق آپ بھلے ہی ایک نامناسب انسان ہوں،مگر خود کی نظر میں حضرت خضرؓ سے کم نہ ہوں گے۔
ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ کوئی شخص برا نہیں ہوتا، اس کا نفس اس پر حاوی ہوتا ہے۔ بلکہ جس طرح خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ کا کرشمہ ہے، برائی بھی دیکھنے والے کی آنکھ کا دھوکہ ہے۔یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ ہماری ہی نظربری ہوتی ہے۔ ہم دل سے خداسے اس دن خوش ہوتے ہیں جب ہم اپنے آس پاس کے ماحول اور لوگوں سے خوش ہوتے ہیں۔ہم کہتے تو ہیں کہ خدا دل میں ہے، مگر خدا توہمارے ذہن میں بھی نہیں ہوتا۔
بھلا لوگوں کو خوش کرنا ہماری ذمہ داری ہے؟ نہیں، ضروری یہ نہیں کہ لوگ ہم سے خوش ہوں بلکہ یہ کہ ہم لوگوں سے خوش ہوں۔ کیونکہ جب تک خوشی ہمارے خود کے پاس نہ ہو گی تب تک ہم یہی اطمينان قلب کسی دوسرے کو نہیں دے سکتے۔ظاہری طور پر ہمیں دو زندگیاں دی گئی ہیں: ایک یہ جو ہم گزار رہے ہیں اور دوسری وہ جو ہم نے آخرت میں جینی ہے۔پر حقیقتاً یہ ایک ہی ہے۔میں آج تک یہ بات نہیں سمجھ پائی کہ اس میں کیا حکمت ہےکہ ہماری اس دو دن کی زندگی پر ہماری ہمیشہ کی زندگی کا فیصلہ ہونا ہے۔ جبکہ ہم نے تو ریاضی میں یہی پڑھا ہے کہ جب ایک چھوٹی رقم کو بڑی پہ تقسیم کیاجائے تو نتیجہ اتنا تسلی بخش نہیں آتا جتنا اگر بڑی کو چھوٹی پے تقسیم کیاجائے تو آتا ہے۔لیکن اس سے صرف ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ خدا اگر ہماری اس زندگی کوطویل کر دیتا تو پھر امتحان کیسا؟ آخر میں تو سبھی نے تائب ہو جانا تھا اور توبہ کر لینی تھی۔ جو درندے اِس زمانے میں پائے جا رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے جہنم کا ایندھن بننا ہے۔ خدا اِن کی درندگی سے اس قدر نالاں ہے کہ انہیں توبہ کی توفیق اور وقت بھی دینے سے گریزاں ہے۔
آج ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان دونوں زندگیوں میں سے کوئی ایک ہی خود اپنے لیے گزار سکتے ہیں۔ اگر یہ زندگی اپنے لیے گزاریں گے تو آخرت کی زندگی دوسروں کے لیے گزارنی پڑ جائے گی جو بہت گھاٹے کا سودا ہے ۔ یعنی آخرت میں لوگوں کے لیے عبرت کا سامان مہیا کرتے رہیں گے۔اگر ہم آخرت کی ہمیشہ کی زندگی اپنے لیے گزارنا چاہتے ہیں تو یہ لوگوں کے لیےگزارنی پڑے گی، جو اتنا بھی مشکل کام نہیں۔
یہ زندگی ایک ایسا گہرا سمندر ہے جس میں تیز رفتاری کے بجائے تحمل کی زیادہ ضرورت ہے،کیونکہ جونہی نزع کا وقت آتا ہےتو انسان کو پتہ چلتا ہےکہ جس ساحل تک پہنچنے کےلیےاس نے سمندر پارکیاتھا وہ تو اس گہرے سمندر سے بھی زیادہ گہرا ہے۔بہتر یہی ہے کہ اس سمندر کی گہرائی کو پار کرنے کے لیے خود سے بہتر ملاحوں، یعنی اللہ والوں کی کشتی کا چپو بن جائیں۔یہ لوگ نہ صرف آپ کو سمندر کے سفر میں ساتھ رکھیں گے بلکہ ساحل کی گہرائی میں بھی نجات کا سامان مہیا کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں