اسلام آباد:: وفاقی حکومت کے غذائی تحفظ کمشنر ڈاکٹر وسیم نے بتایا ہے کہ ٹڈی دل 16 ملین سکوائر کلومیٹر پر محیط ہے۔ پنجاب میں 15 فیصد جبکہ سندھ میں 35 فیصد ٹڈی دل موجود میں ہے۔ پہلے پینتیس ہزار ادویات اور چار جہاز سے سپرے ہوتا تھا جو کہ اب نہیں ہے۔
قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زرعی مصنوعات کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس فخر امام کی کنویئنرشپ میں ہوا۔ اجلاس میں وزارت غذائی تحفظ حکام نے ٹڈی دل پر بریفنگ دی۔
وفاقی حکومت کے غذائی تحفظ کمشنر ڈاکٹر وسیم نے بتایا کہ کسانوں کو ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے تربیت دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر وسیم اب تک 9 لاکھ 16 ہزار ہیکٹر سروے کیا جس میں 3 لاکھ ہیکٹر ٹریٹ کیا ہے۔ ٹڈی دل پنجاب اور سندھ سے نکل کر بلوچستان جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹڈی دل کیلئے آرمی سمیت 16 سٹیک ہولڈرز آن بورڈ ہیں۔ آرمی کے ٹریننگ پروگرام نے بھی ٹڈی دل خاتمہ کیلئے شروع کر دیے ہیں، 300 جوانوں کو تربیت دیں گے۔ وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ 10 سے 12 جہاز چاہیں جس کے لئے ہمارا شیئر ساڑھے سات ارب بنتا ہے۔ اگر جہاز مل جائیں تو اس قابل ہوں گے کہ صحرا میں اسے رکھ پائیں۔
ڈاکٹر وسیم نے مزید بتایا کہ ٹڈی دل کیلئے 8 ہفتے بہت سنگین ہیں۔ ٹڈی دل بھارت اور پاکستان میں پیدا ہوتا اور جگہ بدلتا رہتا ہے۔ پی سی ایس آئی آر میں ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے نہ عملہ ہے نہ ہی ادویات ہیں۔ بھارتی حکام پہلے رابطے میں تھے لیکن اب تعلقات کی خرابی کے باعث رابطے میں نہیں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے تیس کروڑ روپے کا فنڈز مانگا گیا تھا تاہم اب تک چودہ کروڑ روپے ہی ملے۔ اجلاس میں سید فخر امام نے کہا کہ زرعی ملک ہوتے ہوئے 80 فیصد کھانے کا تیل اور دالیں امپورٹ ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک 27 فصلوں کو سپورٹ پرائس دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ شاید ہی کوئی فصل ہو جس کی سیڈ پروڈکشن میں لانگ ٹرم شفٹ کیا ہو، ہمارے پاس ایک بھی ڈی این اے سرٹیفائڈ نرسری نہیں ہے۔