ہم جب کالج میں تھے اور انتھک محنت کرنے کے بعد امتحانات کے قریب پہنچے تو ہمارے اردو کے استاد نے ہمیں ”ٹوکہ”نام سے آشنا کرایا۔اس نام سے ہم پہلے انجان تھے،اس لیے ہم سب تجسس کے ساتھ اس شخصی کتاب کے اوراق کو پلٹنے کے لیے بے قرار تھے۔سر نے بڑے ہی دل موہ لینے والے انداز میں ٹوکے کی داستان سنائی۔ بولے، “میں بورڈ کے پرچے چیک کرنے جاتا تھا۔وہاں ایک آدمی کی قابلیت کا سن کر دنگ رہ جاتا۔ مجھے اُس شخص سے ملنے کابہت شوق تھا۔وہ شخص بھی اردو کے پرچے چیک کرتا تھا۔میں جب بھی آتا ٹوکہ پیپر چیک کر کے میرے آنے سے پہلے گھرجا چکا ہوتا۔
ایک دن میں اپنے معمول کے وقت سے گھنٹہ پہلے، صرف ٹوکے کی دید کے لیے پہنچا تو بھی میں نے ٹوکے کو موجود نہیں پایا۔اپنے ہم نشینوں سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو کب سے اپنے پیپرز کے بنڈل چیک کر کے چلے گئے ہیں۔میں حیران پریشان کہ یا الٰہی، ماجرہ کیا ہے؟ بندہ روزانہ اتنے پیپرز کے بنڈل کیسے چیک کر سکتا ہے؟
اب تو ان سے ملنے کا خیال جنون کی حد تک مجھ پر سوار ہو گیا۔ میں نے ٹھانی کہ ان سے اب تو ضرور ملنا ہے اور پوچھنا ہے کہ آپ کے پاس کون سا ایسا ہنر ہے کہ آپ سینکڑوں کی تعداد میں پرچہ جات صرف گھنٹے بھر میں چیک کر لیتے ہیں۔ان سے ملنے کی تمنا اگلے دن صبح سویرے ان کے پیپر چیک کرنے کی جگہ پر مجھے کھیں چ لائی۔میری خوش قسمی تھی کہ ٹوکہ صاحب پیپرز چیک کر کے نکل ہی رہے تھے کہ گیٹ پر میری ان سے ملاقات ہو گئی۔میں نے تو پہلے ان کے مبارک ہاتھوں کا بوسہ لیا اور کہا کہ ” عزت مآب، میں کافی دنوں سے آپ سے ملنا چاہ رہاتھا۔ آپ سے ملنے کی جستجو میں،میں اپنے معمول کے وقت سے پہلے بھی ایگزمینیشین سینٹر میں پہنچا مگر میری بد قسمتی، جب بھی آتا صرف آپ کے نام کو ہی پاتا، آپ کو جلی طور پر دیکھنے کاشرف آج حاصل ہوہے۔آپ مجھے بس اتنا بتا دیجئے کہ آپ کیسے اردو کے اتنے طویل پرچے سینکڑوں کی تعداد میں صرف گھنٹے بھر میں چیک کر لیتے ہیں؟
انہوں نے اس سوال پر قہقہہ لگا کر مجھے جواب دیا کہ ”جناب اس کے پیچھے ایک گہرا راز ہے” میں نے پوچھا”حضرت کیا ہے وہ راز؟”تو انہوں نے کہا کہ” میرے پاس جتنے بھی اردو کے پرچے آتے ہیں میں سب کو 100 میں سے 70 یا80 سے زیادہ نمبر دے دیتا ہوں،بے شک جس نے جو لکھا ہو میں پڑھنے کا ذرابھی تکلف نہیں کرتا، بس جو پرچہ آئے 70 یا80 سے اوپر نمبر لگا دیتا ہوں۔”
میں نے پوچھا، ”حضرت اگر کوئی خدا نخواستہ اپنا پرچہ ریچیک کروا دے توپھر آپ کے لیے تو بڑا مسئلہ بن جائے گا۔”انہوں نے نہایت ہی خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا کہ ”جناب، جو کوئی فیل ہو رہا ہو اوراس کے 80 نمبر آ جائیں تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ بیشک جوبھی ہو جائے،وہ کبھی اپنا پیپر ری چیک نہیں کرائے گا۔ کیونکہ اسے مفت میں مارکس مل رہے ہیں۔اور اس لیے میرا یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا اور وہبھی خوش،میں بھیخوش۔”
استادِ محترم کی یہ کہانی سن کر، میں بس حیرانی سے ان کے چہرے کو تکتا رہ گیااور ملک کے فرسودہ تعلیمی نظام پر افسوس کرتا رہا۔
پہلے تو صرف ایک ٹوکہ ہی تھا جو ہزاروں بچوں کو من چاہے نمبروں سے نواز دیتاتھا۔ مگر اب تو افسوس صد افسوس، ہماری پوری حکومت ٹوکہ بن گئی کہ لاکھوں طالبعلموں کو پروموٹ کرنے کے ساتھ ساتھ 3% فالتو نمبر بھی تھما دیے تاکہ سب خوش ہو جائیں اور ان کے فیصلے پر خوشی خوشی رقص کریں۔کوئی بھی ان کے فیصلے پر تنقید نہ کر سکے۔ کیونکہ سب کو مفت میں مارکس مل رہے ہیں اور ہماری قوم کی حالت زار اسی مفت خوری نے کی ہے۔
.3% اضافی نمبر دینے اور پرچے نہ لینے سے ہزاروں طالبعلموں کا مستقبل تباہ ہو گا۔آگے اچھی یونیورسیٹی میں داخلے کے لیے ایک ایک نمبر بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اور کچھ اضلاع میں میڈیکل کالجوں کی ایک سیٹ کے لیے سینکڑوں طالبعلم امیدوار ہوتے ہیں۔اور بعض اوقات تو 0.05 پرسنٹ سے بچوں کا ایڈمیشن نہیں ہو پاتا اور ان کی ساری محنت رائیگاں جاتی ہے۔حکومتِ وقت کا یہ نہایت ہی احمقانہ فیصلہ تھا۔ اور اگر اسی طرح کے ٹوکے ہمارے تعلیمی نظام کو چلاتے رہے تو ہمارا تعلیمی نظام ہمیشہ فرسودہ ہی رہے گا اور بیشک ہمارے طالبعلم ڈگری یافتہ بن جائیں گے، پر وہ تعلیم یافتہ کبھی بھی نہیں بن سکیں گے۔اللہ قادرمطلق ہم سب کو ہر امتحان میں ٹوکے سے بچا کر رکھے۔آمین
؎ رحم کھا کے لیڈروں کو اپنی حالت زار پر
کم سے کم سو سال تک آرام کرنا چاہیے
