میرے دیس کے جیسے حالات ہیں ، کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا مطلب کیا ہوتا ہے ، اب سمجھ میں آیا ۔ حضرت انسان جتنا فکرمند اس صدی میں دکھائی دے رہا ہے ، پہلے کبھی نہیں رہا ہو گا ۔ حضرت انسان ہی جتنا خطرناک اس صدی میں ہوا ہے ، پہلے کبھی نہیں رہا ۔ حضرت انسان جتنا لالچی اس صدی میں رہنے لگا ہے ، پہلے کبھی نہیں رہا۔ محض معمولی سی بات کو جھگڑا بنا دینا اب اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے ۔ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر پوری نسل آگ میں جھونکنا اب اس کے شیطانی دماغ کا معمولی سا ہنر بن چکا ہے ۔ سیاست کی کیا ہی بات کریں ، کہ اب تو ہر دوسرا شخص سیاستدان ہی نظر آتا ہے ۔ ان کو دیکھ کر یہی کہنے کا دل کرتا ہے:
گربہ کشتن ، روز اول۔
( پہلے ہی روز بلی کو مارنا )
( لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں جاتے)
میرے دیس میں ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اب کہ اب ہر اس مولوی اور ملا سے ڈر لگتا ہے جو ایمان کو کمزور کرنے کا باعث بن جائے ۔ ہر اس عالم سے ڈر لگتا ہے جو دماغ کی فطری صلاحیت ختم کرنے کا باعث بنے ۔ ہر اس سیاسی لیڈر سے ڈر لگتا ہے جو جزبہ حب الوطنی پر قدغن لگا دینے کا سبب بنے ۔ ہر اس لبرل سے ڈر لگتا ہے جو معاشرے میں ناسور بن کر رہ جانے کا نشان بنے ۔ ہر اس معالج سے ڈر لگتا ہے جو لاعلمی کو بنیاد بناء کر مرض سے زیادہ جسم کو نقصان پہنچا دینے کی وجہ بنے۔ ہر اس نفس سے ڈر لگتا ہے جو برائی کو بھلائی پر ترجیح دینے کا پیش خیمہ ثابت ہو ۔ یہاں بہتی ہی الٹی گنگا رہی ہے ۔ دیا شنکر نسیم لکھنؤی نے کیا خوب فرمایا:
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے
ہم زہریلے سانپوں اور حشرات الارض سے ڈرتے رہے ۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ ایسے سانپ اب کہیں چھپ کر رہ گئے ہیں ۔ جیسے خربوزہ خربوزے کو دیکھ رنگ بدلتا ہے ویسے ہی حضرت انسان نے یہ عمل سانپوں سے سیکھ لیا ہے ۔ اور سیکھا بھی ایسا کہ سانپ بھی شرما جائے ۔ میرے ملک میں ایک سبزی فروش بھی اپنے جیسے غریب گاہک کو ڈستا ہے ۔ اور ایک بڑے مال میں بیٹھا سیٹھ بھی اپنے امیر گاہک کو ڈستا ہے ۔ غریب دوکاندار کی سنو تو اس سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں۔ امیر سیٹھ کا رونا دھونا سنو تو اس کی بات میں “وزن” ہوتا ہے ۔ حال تو کہیں بھی اچھا نہیں۔ نا بنگلوں میں رہنے والوں کا ، نا جھگیوں کے مکینوں کا۔ اور اس میں قصور حکمران کا کم عوام کا زیادہ ہے ۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ:
اگوں اگ تے پچھوں سپ
( آگے گر آگ ہے تو پیچھے سانپ)
ایک اہم مسئلہ جسے ہم مسئلہ کم ، ٹرینڈ زیادہ سمجھتے ہیں ۔ وہ ہے اردو کی ٹانگیں توڑنے کا، اور انگریزی کی گردن مڑورنے کا ۔ یہ ایک نسل کی نہیں ، کئی نسلوں کی کمزوری معلوم ہوتی ہے ۔ کیونکہ میں نے تو ہر عمر کے افراد کو اس وائرس میں مبتلا دیکھا ہے ۔ میرے ملک کے عوام اب نا تو اردو ہی صحیح بول پاتے ہیں اور نا انگریزی۔ شاعر سے معزرت کے ساتھ، :
نا خدا ہی ملا نا ہی وصال صنم
نا اردو کے رہے نا انگریزی کے ہم
میرے دیس میں پانی تو میٹھا مل جائے گا ، مگر لوگ “میٹھے” کم ملے گیں ۔ جسمانی بیماری ہو نا ہو ، ذہنی بیمار بہت ملے گیں ۔ چادر چھوٹی بھلے ہو ، اوقات سے باہر ضرور ملے گیں ۔ جہاں ضرورت نا ہو وہاں ٹانگ اڑاتے ضرور ملے گیں ۔ حوصلہ بھلے ہو نا ہو ، ایڈونچر مناتے ضرور ملے گیں۔ اور صلاحیت بھلے ہو نا ہو ، حکمرانی جماتے ضرور ملے گیں۔ درسی کتابوں کا معیار اب یہ ہو گیا ہے کہ ہماری کتابیں اور ہماری تاریخ بھی اب باہر سے چھاپ کر آتی ہے ۔ اور پڑھانے والے کو کتاب کا لکھا بھی سمجھ نہیں آتا ۔ بےچارے پڑھنے والے کہاں جائیں!! ۔ کچھ دن پہلے ایک اسکول میں بچوں کے ساتھ وقت گزارا ۔ اردو میڈیم اسکول، اب اسکولوں کو بھی درجے دیئے گئے ہیں اللہ خیر کرے ۔ خیر ، بچوں سے بات چیت کے دوران ایک بسکٹ “نان کتھائی” کھول کر سب بچوں کو دیا ۔ دور بیٹھے ایک بچے نے ہاتھ اٹھا کر زور سے بولا ” مس ، مجھے حاتم طائی بہت پسند ہے”۔ مجھے حیرت ہوئی اور پوچھا : ” حاتم طائی کو پڑھا آپ نے؟”۔ تو بچہ بولا ” نہیں۔ حاتم طائی کو کھاتا ہوں شوق سے”۔ سب بچے ہنس پڑے۔ میں نے پوچھا : “بیٹا حاتم طائی کون کھاتا ہے بھلا”۔ اس بچے نے جواب دیا : “آپ بھی تو کھا رہی ہیں۔ یہ حاتم طائی بسکٹ “۔ تب مجھے اندازہ ہوا وہ “نان کھتائی” کو ” حاتم طائی” کہہ رہا ہے ۔ اور اس کی اس غلطی کو معصومیت سمجھ کر نا والدین ٹھیک کر سکے نا اساتزہ۔ جب کہ وہ بچہ آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔
آدم بہ امید زندہ است
( دنیا بہ امید قائم )