میری لینڈ:: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ننھے ننھے جانداروں میں عقل نہیں ہوتی اور وہ پیچیدہ فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، تو یہ خبر آپ کی غلط فہمی دور کردے گی۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول، امریکا کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ صرف ایک خلیے پر مشتمل، ننھا منا جاندار ’’اسٹنٹر روئسیلائی‘‘ (Stentor roeselii) بھی اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہے کہ اپنے ارد گرد بدلتے حالات کے ردِعمل میں پیچیدہ فیصلے کرسکے، اور اگر کسی فیصلے پر عمل درآمد کا فائدہ نہ ہو تو فوراً ہی اپنی حکمتِ عملی تبدیل کردے۔
اس طرح کا طرزِ عمل بالعموم بڑے اور پیچیدہ جانداروں ہی میں دیکھا گیا ہے جو بیک وقت لاکھوں، کروڑوں اور کھربوں خلیوں (سیلز) کا مجموعہ ہوتے ہیں جبکہ ان کا باقاعدہ اعصابی نظام بھی ہوتا ہے جو پیچیدہ اور تفصیلی فیصلے کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن ایک خلیے پر مشتمل ادنیٰ جانداروں سے ایسی ’’سمجھداری‘‘ کی توقع نہیں کی جاتی بلکہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک لگے بندھے انداز ہی میں اپنا کام کرتے ہیں اور (اعصابی نظام نہ ہونے کی وجہ سے) انتہائی سادہ قسم کے فیصلے اور حرکات و سکنات انجام دے سکتے ہیں۔
اسٹنٹر روئسیلائی بھی ایسا ہی ایک جاندار ہے جو دنیا بھر کے تازہ پانیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر آہستہ بہنے والے یا کھڑے ہوئے تازہ پانی میں موجود ہوتا ہے۔ اس کا پورا جسم صرف ایک خلیے پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اسے بیکٹیریا کی جماعت میں شامل نہیں کیا جاتا۔ خردبین کے نیچے اس کی شکل کسی بھونپو کی طرح دکھائی دیتی ہے جبکہ اس پر انتہائی باریک، خردبینی بال ہوتے ہیں جنہیں حرکت دے کر یہ پانی میں اِدھر سے اُدھر حرکت کرتا ہے۔
تازہ تجربات کے دوران ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ماہرین نے اسٹنٹر روئسیلائی کے ساتھ چھیڑ خانی کی اور اسے جان بوجھ کر تنگ کیا۔ پہلے مرحلے میں اس ننھے منے یک خلوی (ایک خلیے والے) جاندار نے اپنے بال ہلا کر اور پانی میں کچھ ذرّات خارج کیے لیکن تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہنے پر وہ اپنی جگہ پر ہی سمٹ گیا، جیسے کہ دبک گیا ہو۔ پھر اس نے اپنا بھونپو جیسا حصہ ہلایا اور سب سے آخری کوشش کے طور پر اس نے اپنی جگہ چھوڑی اور تیزی سے پانی میں تیرتا ہوا کہیں دُور چلا گیا۔
ان تجربات سے واضح ہوا کہ اگرچہ یک خلوی جانداروں میں دماغ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن پھر بھی وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو محسوس کرنے اور مختلف حالات کے تحت مختلف ردِ عمل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر مسئلہ حل نہ ہو تو یک خلوی جاندار بھی اپنا انداز بدل کر اسے الگ طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے؛ اور یہ سارا کام وہ انتہائی منظم انداز میں کرتا ہے۔