0

تنقیدی مقابلہ :: تحریر: عادل خان

گزشتہ دو دنوں سے پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں ایک تقریری مقابلے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ یہ تقریری مقابلہ پاکستان کے مقدس پارلیمان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ اپوزیشن کے بارہا اصرار کے بعد حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر ہی لیا لیکن اس میں بھی عوامی مسائل کو خاطر میں لائے بغیر تقریروں کے نشتر برسا دیے۔ کیا نون لیگ،کیا پی پی، اور کیا تحریک انصاف۔سب ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیے۔ تو حضور صورتحال کچھ یوں ہے کہ تنقیدی مقابلے میں کوئی ممبر قومی اسمبلی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں نظر آرہا۔ خاص طور پر کچھ منسٹر اور اپوزیشن رہنماء اس کاریخیر میں پیش پیش ہیں۔ جن کا مقصد ہے کہ بہتر سے بہتر اپنی تقریری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے تنقید کی جائے اور اپنے قائدین سے داد سمیٹی جائے۔
ایسے حالات میں جہاں پوری دنیا کو شدید بحران کا سامنا ہو، جہاں دنیا کو مالی اور جانی خطرات لاحق ہوں، ایسے بیانات سامنے آنا باعث تشویش ہے۔جہاں دنیا کے دیگر ممالک مسائل کے حل کی تلاش میں مصروف ہیں وہاں ہمارے قائدین بیان بازی میں مشغول ہیں۔ کہیں سے چور چور کے نعرے سربلند ہوتے ہیں تو کہیں بلیک میلنگ اور نیب نیازی گٹھ جوڑ کا نعرہ طول پکڑتا ہے۔ ان مشکل حالات میں جہاں 1کروڑ 80لاکھ لوگوں کے بیروزگار ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے وہیں 2 سے 7 کروڑ افراد کا سطح غربت سے نیچے جانے کا امکان ہے۔ جبکہ ملک بھر میں 10 لاکھ چھوٹے کاروبار مکمل طور پر بند ہونے کا خطرہ ہے۔ ایسے حالات میں عوامی نمائندگان کا ایک دوسرے پر چڑ دوڑھنا قابل افسوس ہے۔ کرنا تو یوں تھا کہ سب عوامی نمائندگان ایک ساتھ مل بیٹھ کر مسائل کے حل کے لئے مکمل تعاون فراہم کریں۔ مگر افسوس، یہاں گنگا سیدھی بہی ہی نہیں۔
یہ ملک اس وقت 34ہزار 135 ارب روپے کا مقروض ہے،جہاں سونے کو بستر، کھانے کو روٹی اور رہنے کو چھت میسر نہیں ہے۔ 2کروڑ 50لاکھ بچہ سکولوں سے باہر ہے، نوکرریاں ڈھونڈنے کے لئے لوگوں کو مارے مارے پھرنا پڑتا ہے۔یہ اس خداداد مملکت پاکستان کے مقدس پارلیمان میں بیٹھے نمائندگان کی باتہے جو ملک کو اس نہج پر پہنچانے کے بعد بھی ایک دوسرے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہر وقت میڈ یا پر عوام کا رونا رونے والے اسمبلیوں میں جاتے ہی اپنی توپوں کا رخ ایک دوسرے کی جانب کر لیتے ہیں۔یہ تمام تر باتیں ایک طرف، عوامی مسائل کے حل اور قانون سازی کے لئے بنائی گئی اسمبلیاں ماسوائے ممبران کی تنخواہ کی صورت میں جیبیں بھرنے کیعلاوہ کسی عام آدمی کے لئے سودمند ثابت نہیں ہوئیں۔
بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی
رسواء ہوتی ہوئی عام عوام کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، ہر انسان کو اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔عام آدمی کبھی ووٹ کو عزت کے نعرے پر بہلایا جاتا ہے، کہیں روٹی کپڑا مکان تو کہیں نئے پاکستان کی رام کہانی سنا کر اسے سنہرے خواب دیکھائے جاتے ہیں۔ عام آدمی اپنے نمائندگان کو اپنے مابین پاکر خوش و خرم اور با اختیار سمجھ بیٹھتا ہے۔لیکن الیکشن کے بعد وہی عام آدمی لون ولف بنا آپ کو سڑک کنارے ملتا ہے۔ پھر نہ ملتی ہے،روٹی اور نہ ہی نیا پاکستان۔ ملیں گی تو صرف تقریں۔
کوروناوباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔45 لاکھ کے قریب لوگ وباء سے متاثر ہوچکے ہیں، پاکستان بھی 35 ہزار کیسز کے ساتھ ایشیاء کا تیسرا کورونا سے متاثر ہونے والا بڑا ملک بن چکا ہے۔ ان تمام تر حالات میں جہاں ہمارے ملک کو بیشتر چیلنجز کا سامنا ہے وہیں عوامی نمائندگان کو ایک جگہ یکجا ہو کر دکھانے کی شدید ضرورت بھی ہے۔ تاکہ عوام کو یہ اطمینان ہو کہ حکمران اس موزی مرضکے بارے سنجیدہ ہیں۔پارلیمان میں مقابلہئ تقریر برائے تنقید، مقابلہئ خدمت ہوا کرے تو بہتر، ورنہ اپنی افادیت کھوتا ہوا پارلیمان ایک بوسیدہ عمارت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں