0

تاریخ کا پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ

لاہور:: تاریخ کا پہلا کرکٹ ٹیسٹ 1877ء میں میلبرن (آسٹریلیا) میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا۔ یہ میچ 15 مارچ سے 19مارچ تک کھیلا گیا، یعنی پہلا ٹیسٹ میچ ہی پانچ روزہ تھا۔

یہ ٹیسٹ آسٹریلیا نے 45 رنز سے جیت لیا۔ اس وقت کی کرکٹ کیا ہوگی؟ یہ تو آج کے شائقین نہیں جانتے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ڈیڑھ سو برس میں کرکٹ نے جتنی ترقی کی ہے اور اس کی مختلف شکلیں سامنے آئی ہیں۔

اگر تاریخ کا پہلا ٹیسٹ کرکٹ میچ کھیلنے والے کھلاڑی آج زندہ ہو کر واپس آ جائیں تو وہ بے پناہ حیرت سے بے ہوش ہو سکتے ہیں۔ آج کرکٹ ٹیکنالوجی کتنی آگے بڑھ گئی ہے، کرکٹ کتنی سنسنی خیز ہو گئی ہے اور اس کے شائقین کروڑوں تک پہنچ گئے ہیں‘ یہ تو کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

اگر کرکٹ کے پرانے میچز دیکھے جائیں تو وہ بے مزہ ہوں گے۔ ان میں جوش و خروش اور ولولے کی نہایت کمی نظر آتی ہے۔ گلیمر نامی کوئی چیز ان میچوں میں نظر نہیں آتی۔ کوئی چوکا یا چھکا لگے یا کوئی کھلاڑی آئوٹ ہو جائے تو خوشی منانے کا انداز نہایت پھیکا لگتا ہے۔ آج کل کی کرکٹ میں ایسے مواقع پر اتنی بھرپور خوشی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جس کا آج سے 70 یا 80 برس پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کھلاڑیوں کے ساتھ شائقین کا جذبہ دیدنی ہوتا ہے۔ پھر آج کی کرکٹ میں پیسہ بھی بہت ہے۔ کھلاڑی کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں۔

ایک روزہ اور ٹی 20 میچوں نے اس کھیل کی شکل ہی تبدیل کردی ہے۔ چونکہ اب کرکٹر کو کافی رقم ملتی ہے اس لئے وہ بھی بہت محنت کرتا ہے۔ بہرحال ہم اس مضمون میں تاریخ کے پہلے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے بارے میں اپنے قارئین کو بتائیں گے۔

اگرچہ اس ٹیسٹ میچ میں حصہ لینے والا کوئی کھلاڑی زندہ نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کیلئے لکھا جا چکا ہے۔

اس میچ کا ٹاس آسٹریلیا نے جیتا اور میلبورن کی تاریخ گرائونڈ میں اپنی پہلی اننگز کا آغاز کیا۔ آسٹریلیا کی پہلی اننگز کے بارے میں کچھ بتانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے ان کھلاڑیوں کے ناموں کا ذکر کیا جائے جنہوں نے پہلا ٹیسٹ میچ کھیل کر تاریخ میں اپنا نام لکھوایا۔

آسٹریلیا کی طرف سے سی بینزمین‘ این ایف ڈی تھامسن‘ ٹی پی ہوران‘ ڈی ڈبلیو گرلگیری (کپتان) بی بی کوپر ڈبلیو ای مڈونٹڑ‘ ای جے گرلگیری‘ جے ایم بلیک ہم‘ ٹی ڈبلیو گیرٹ‘ ٹی کے کینڈل اور جے آر ہوجز نے اس میچ میں حصہ لیا۔
انگلینڈ کی طرف سے جو کھلاڑی میدان میں اترے ان کے نام تھے

اے ہل، اے گرین وڈ، ایچ جپ، ایچ آر جے چارل وڈ، جے سیلبی، جی یولائٹ، اے شا، ٹی آر میٹچ، ٹی امیٹ، جیمز للی وائٹ (جونیئر) (کپتان) اور جے سائوتھرٹن، جن کی اس وقت عمر 49 برس تھی۔

پہلی اننگز کا آغاز کرنے آسٹریلیا کے افتتاحی بلے باز سی بیزمین اور ایچ ایف ڈی تھامسن میدان میں اترے۔ انگلینڈ کو فوری طور پر کامیابی ملی جب اس کے باؤلر ایلن ہل نے تھامسن کو ایک رن پر آؤٹ کر دیا اور ٹونی ہل نے انہیں کلین بولڈ کیا۔

اس کے بعد بیزمین کا ساتھ دینے کیلئے ٹی پی ہووان آئے۔ انہوں نے 12 رنز بنائے جس میں کوئی باؤنڈری نہیں تھی۔ ہوران کی وکٹ اے شا نے لی اور ٹونی ہل نے انکا کیچ پکڑا۔

دو وکٹیں گنوانے کے بعد آسٹریلوی کپتان ڈی ڈبلیو گریگری بیزمین کا ساتھ دینے کریز پر آئے لیکن بدقسمتی سے گریگری ایک رن بنا کر آؤٹ ہو گئے۔

دوسری طرف بیزمین مسلسل رنز بنا رہے تھے اور ان کے عزائم سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے اور تاریخ کے پہلے ٹیسٹ میچ کو یادگار بنانا چاہتے ہیں۔

اب ان کا ساتھ دینے بی بی کوپر آئے۔ انہوں نے 15 رنز بنائے اور لگ رہا تھا کہ وہ جم کر کھیلیں گے لیکن انہیں ساؤتھرٹن نے کلین بولڈ کر دیا۔ اس وقت برق رفتار باؤلرز کے پاس سوئنگ کا ہتھیار نہیں تھا۔ وہ بس اپنی لائن اور لینتھ اور رفتار کی وجہ سے وکٹیں لیتے تھے۔

اس کے بعد ڈبلیو ای مڈ ونڑ کو بھی سائو تھرٹن نے 5 رنز پر آؤٹ کیا۔ ان کا کیچ یولائٹ نے پکڑا۔ ای جے گریگری بغیر کوئی رن بنائے للی وائٹ کی گیند پر گرین وڈ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔

اس کے بعد جے ایم بلیک ہم نے کریز سنبھالی اور بڑے دھیمے انداز سے کھیلنا شروع کیا۔ جب انہوں نے 17رنز بنائے تو ساؤتھرٹن نے ایک بار پھر اپنی باؤلنگ کا جادو جگایا اور بلیک ہم کو ان کے ذاتی سکور 17 پر کلین بولڈ کر دیا۔ دوسری طرف بینزمین سنچری کر چکے تھے اور تاریخ میں اپنا نام لکھوا چکے تھے۔

بلیک ہم کے بعد ٹی ڈبلیو گیرٹ نے 10 رنز بنائے اور آخر تک آؤٹ نہیں ہوئے۔ ان کے ساتھ کینڈل کھیلنے آئے جنہوں نے ابھی 3 رنز ہی بنائے تھے کہ انہیں اے شا نے ساؤتھرٹن کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کرا دیا۔

آخری کھلاڑی کوئی رن نہ بنا سکے اور انہیں اے شا نے کلین بولڈ کر دیا۔ اس طرح آسٹریلیا کی پوری ٹیم 245 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ بیزمین نے 165 رنز بنائے اوروہ ریٹائرڈ ہرٹ ہو کر پیویلین چلے گئے۔

اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 245 رنز میں سے 165 رنز صرف بیزمین نے بنائے اور ان کے علاوہ کوئی آسٹریلوی بلے باز 18 سے زیادہ رنز نہ بنا سکا۔

بیزمین نے اپنی اننگز میں 18 چوکے لگائے لیکن کوئی چھکا نہ لگا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بینزمین کے علاوہ کوئی آسٹریلوی بلے باز چوکا بھی نہ لگا سکا۔

اس اننگز کی سست رفتاری کا یہ عالم تھا کہ 245 رنز 169.3 اوورز میں بنائے گئے۔ آج کل کی کرکٹ میں تو اتنے رنز 20 یا 22 اوورز میں بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

انگلینڈ کی جانب سے اے شا اور ساؤتھرٹن نے تین تین وکٹیں اپنے نام کیں جبکہ ٹونی ہل اور للی وائٹ جونیئر کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی جبکہ ایک کھلاڑی رن آؤٹ ہوا۔

اے شا سب سے کفایتی باؤلر ثابت ہوئے جنہوں نے 55 اوورز میں 51 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں۔ 55 اوورز میں انہوں نے 34 میڈ ان اوور کرائے۔ انگلینڈ کی فیلڈنگ مجموعی طور پر اچھی رہی۔

اب انگلینڈ کے بلے باز میدان میں آئے۔ ایچ جپ اور جے سیلبی نے اننگز کا افتتاح کیا۔ جے سلپی نے صرف 7 رنز ہی بنائے تھے کہ انہیں ہوجز نے کوپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کرا دیا۔

اس کے بعد ون ڈاؤن پوزیشن پر چارلوڈ آئے اور انہوں نے جپ کے ساتھ اعتماد سے کھیلنا شروع کر دیا۔ دونوں بلے باز سکور آگے بڑھاتے رہے اور یوں لگ رہا تھا کہ انگلینڈ 245 سے زیادہ رنز بنا لے گا لیکن پھر یوں ہوا کہ چارلوڈ 36 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ انہیں مڈونٹر نے بلیک ہم کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کرا دیا۔ انہوں نے 36 رنز میں صرف دو چوکے لگائے۔ اس کے بعد جی یولائٹ کو تھامسن نے ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ انہوں نے 10رنز بنائے جس میں دو چوکے شامل تھے۔

گرین وڈ نے ایک رن بنایا اور وہ مڈونڑ کی گیند پر ای جے گریگری کے ہاتھوں کیچ آئوٹ ہو گئے۔ اس کے بعد ٹی ایم ایمٹ آئے اور وہ 8رنز بنا کر مڈونڑ کی گیند پر کلین بولڈ ہو گئے۔

ہل نے جم کر بلے بازی کی اور 35 رنز بنا کر آئوٹ ہوئے۔ دوسری طرف جپ 63رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ان کی اننگز میں صرف 2چوکے شامل تھے جبکہ ہل نے 35 رنز میں کوئی چوکا نہیں لگایا۔ ٹی آر میٹچ سے بہت توقعات وابستہ تھیں لیکن وہ صرف 9رنز بنا سکے۔ انہیں مڈونڑ نے بلیک ہم کے ہاتھوں کیچ آئوٹ کرایا۔

جیمز للی وائٹ (کپتان) صرف 10رنز بنا سکے اور کینڈل نے اپنی ہی گیند پر ان کا کیچ لے لیا۔ انگلینڈ کے آخری کھلاڑی جے سائوتھرٹن 6رنز بنا کر گیرٹ کے ہاتھوں آئوٹ ہو گئے۔ اس طرح انگلینڈ کی پوری ٹیم 196رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی۔ یہ رنز 136.1 اوورز کھیل کر بنائے گئے۔ یعنی انگلینڈ کے بلے بازوں نے بھی انتہائی سست رفتاری سے بلے بازی کی۔

آسٹریلیا کی طرف سے مڈونڑ نے 78رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں جبکہ گیرٹ نے 2‘ کینڈل اور تھامسن نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ انہوں نے یہ وکٹیں بالترتیب 22‘ 54 اور 14 رنز کے عوض اپنے نام کیں۔ اس طرح آسٹریلیا کو 49رنز کی برتری حاصل ہو گئی۔

دوسری اننگز میں آسٹریلیا نے 68 اوورز میں صرف 104 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کے بائولرز کی طرح انگلینڈ کے بائولرز نے بھی بڑی نپی تلی بائولنگ کی۔ بیزمین دوسری اننگز میں صرف 4 رنز بنا سکے انہیں یولائٹ نے بولڈ کیا۔ تھامسن صرف 7رنز بنا سکے۔ انہیں اے شا نے ایمٹ کے ہاتھوں کیچ آئوٹ کرایا۔

ٹی پی ہوران کو ہل نے میلسی کے ہاتھوں کیچ آئوٹ کرا دیا۔ وہ صرف 20رنز بنا سکے۔ گیرٹ کو اے شا نے ایمٹ کے ہاتھوں کیچ آئوٹ کرا دیا اور وہ کوئی رن نہ بنا سکے۔

اب بی بی کوپر کی باری آئی تو انہیں آتے ساتھ ہی اے شا نے بولڈ کردیا۔ مڈونڑ اچھا کھیل رہے تھے لیکن جب ان کا سکور 17رنز پر پہنچا تو وہ یولائٹ کی گیند پر سائوتھرٹن کے ہاتھوں کیچ آئوٹ ہو کر پویلین لوٹ گئے۔ ای جے گریگری بھی زیادہ مزاحمت نہ کر سکے اور 11رنز بنا کر یولائٹ کی گیند پر ایمٹ کو کیچ دے بیٹھے۔ جے ایم بلیک ہم سے آسٹریلیا کو بڑی امیدیں تھیں لیکن انگلینڈ کے بائولرز چھائے ہوئے تھے اور بڑی خوبصورت بائولنگ کر رہے تھے۔ بلیک ہم کی اننگز صرف 6رنز تک محدود رہی اور وہ اے شا کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ پھر کپتان ڈی ڈبلیو گریگری میدان میں آئے۔

ان کے کندھوں پر ذمہ داری تھی کہ وہ آسٹریلیا کے سکور میں قابل قدر اضافہ کریں تاکہ پہلی اننگز میں انہوں نے جو 49رنز کی سبقت لی تھی وہ کہیں رائیگاں نہ چلی جائے لیکن وہ صرف 3رنز بنا کر چلتے بنے۔ انہیں بھی اے شا نے بولڈ کیا۔ جے آر ہوجز نے 8رنز بنائے اور انہیں للی وائٹ نے آئوٹ کیا جبکہ کینڈل 17رنز بنا کر ناٹ آئوٹ رہے۔ اس طرح آسٹریلیا 68اوورز میں 104رنز بنا کر ڈھیر ہو گیا۔ آسٹریلیا کا دوسری اننگز میں صرف 104 رنز پر آئوٹ ہونا ناقابل یقین تھا۔

انگلینڈ کی طرف سے اے شا نے بہت کمال کی بائولنگ کی۔ انہوں نے 38رنز دے کر پانچ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی جبکہ یولائٹ نے 19رنز دے کر 3‘ ہل نے 18رنز دے کر ایک اور للی وائٹ جونیئر نے ایک رن دے کر ایک وکٹ اپنے نام کی۔ اب انگلینڈ کو یہ میچ جیتنے کیلئے 154 رنز کی ضرورت تھی۔ تبصرہ نگاروں کی اکثریت کا خیال تھا کہ انگلینڈ یہ ہدف باآسانی حاصل کر لے گا لیکن انگلینڈ کی ٹیم صرف 108 رنز بنا سکی۔ جس عمدگی سے انگلینڈ نے دوسری اننگز میں شاندار بائولنگ کر کے آسٹریلیا کو 104 رنز پر آئوٹ کر دیا۔

ایسے ہی آسٹریلیا کے بائولرز نے بھی انگلینڈ کے بلے بازوں کو جمنے نہ دیا۔ انگلینڈ کی طرف سے رنز جے سلیبی نے 38رنز بنائے۔ یولائٹ 24 اور چارلوڈ 13رنز بنا سکے۔ ایلن ہل صفر‘ گرین وڈ 5‘ جپ 4‘ اے شا 2‘ آرٹیج 3‘ ایمسٹ 9‘ للی وائٹ جونیئر 4 اور سائوتھرٹن ایک رن بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ آسٹریلیا کی طرف سے کینڈل نے تباہ کن بائولنگ کی اور انہوں نے صرف 55 رنز دے کر سات وکٹیں اڑائیں جبکہ ہوجز نے 7رنز دے کر دو اور مڈونٹر نے 23رنز دے کر ایک وکٹ اپنے نام کی۔ کینڈل نے 33.1 اوورز میں 12میڈن اوورز کرائے۔

تاریخ کا پہلا ٹیسٹ آسٹریلیا نے 45رنز سے جیت لیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت کے کرکٹ شائقین کیلئے یہ دلچسپ میچ ہو لیکن آج کی کرکٹ کے حوالے سے یہ ایک انتہائی سست رفتار میچ تھا۔ بلے باز انتہائی احتیاط کے ساتھ کھیلے۔

اس میچ کی اہم ترین بات یہ تھی کہ آسٹریلیا کے بلے باز بیزمین نے ٹیسٹ کرکٹ کی پہلی گیند کھیلی اور پہلی سنچری سکور کی۔ ایلن ہل نے ٹیسٹ کی پہلی وکٹ لی۔ پورے میچ میں بائولرز کا پلڑا بھاری رہا۔ بہرحال اس ٹیسٹ میچ کے 22کھلاڑی تاریخ میں اپنا نام لکھوا چکے ہیں جن کا یہ پہلا ٹیسٹ تھا۔

میلبورن کرکٹ گرائونڈ میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ کے امپائر رچرڈ میڑی اور کرٹس ریڈ تھے۔ سائوتھرٹن وہ کھلاڑی تھے جو 49برس کی عمر میں پہلا ٹیسٹ کھیلے۔ بلیک ہم نے پہلا سٹمپ آئوٹ کیا۔

اس میچ میں کسی بلے باز نے چھکا نہیں مارا۔ بیزمین پہلی اننگز میں 165 رنز بنا کر یولائٹ کی گیند پر زخمی ہو کر ریٹائر ہوئے۔ یہ میچ چار دن میں ختم ہو گیا اور شائقین کی زیادہ سے زیادہ تعداد دس ہزار تھی۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ تعداد بہت زیادہ تھی۔ بہرحال تاریخ کا پہلا کرکٹ ٹیسٹ بہت سی یادیں چھوڑ گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں