ایک شفقت بھرا سایہ تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
در در ٹھوکریں کھاتا تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
اولاد کی خوشی سے خوش ہو جاتا تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
اور اسی کے غم سے نڈھال، وہ جس کا لقب باپ تھا
خود خالی جیب ہو کے مگر اولاد کی ضروریات پوری کرتا تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
خود پھٹے کپڑے جوتے پہن کر اولاد کو نیا پہن پہناتا تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
خود جاہل تھا مگر اولاد کو پڑھا کر بڑا افسر بنانا چاہتا تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
محنت مشقت کر کے ہاتھوں کو زخمی کر لیا تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
پیروں کو چھلنی کر لیا تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
پھر تھک ہار کر جب گھر کو لوٹتا تو اولاد کی ایک خوشی بھری مسکان کو دیکھ کر سب غم اور تھکان بھلا دیتا تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
زندگی میں اتنی مشکلات سہ کر بھی ہر مشکل گھڑی میں اولاد کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا، وہ جس کا لقب باپ تھا
باپ دے نال ای طے بہاراں ہیں زندگی وچ، باپ نا ہووے طے کی کرنا ان بہاراں دا
باپ دے نال ای طے اے ناں ہے زندگی وچ، باپ نا ہوندا طے کون جاندا اس بندے نوں
باپ ای حرفِ اول طے باپ ای حرفِ آخر، باپ ہووے طے سب اپڑیں نا ہووے طے کوئی وی نہیں
یہ لفظ “باپ” بہت مقدس ہستی کا لقب ہے۔ جو کسی کو امیر اور کسی کو غریب مگر ہر صورت میں خدا کی طرف سے فراہم کیا گیا انمول تحفہ ہے
اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا باپ امیر ہے کہ غریب مگر اس بات سے ضرور فرق پڑتا ہے کہ یہ نعمت آپ کے پاس موجود ہے کہ نہیں۔ آج دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو اس نعمت سے محروم ہو چکے ہیں، جنہوں نے شاید اس دنیا میں کبھی اس نعمت کی قدر نہیں کی مگر آج وہ اس سب کے لیے ترستے ہیں، روتے ہیں مگر اس ہستی کو دوبارہ کسی صورت نہیں پا سکتے اور بس یہی خدا کا قانون ہے
“باپ” تو ایسی انمول ہستی ہے کہ اگر اس کی وضاحت کی جائے تو شاید میں کبھی اپنے اشعار کے ذریعے اسے بیان نا کر پاؤں مگر ہاں اتنا ضرور کہوں گی کہ باپ وہ شخص ہے جو اولاد کی خوشی کی خاطر ہر خطرہ مول لے سکتا ہے، اسے دو کپڑوں میں بھی زندگی گزارنی پڑے تو گزار سکتا ہے اور اولاد کی ہر خوشی کا خیال کر کے اسے اچھے سے اچھی اس کی من پسند چیز لے کے دے سکتا ہے چاہے اسے وہ خواہش پوری کرنے کے لیے کسی سے ادھار ہی کیوں نہ لینا پڑنے یا اپنی کوئی قیمتی چیز ہی کیوں نہ گروی رکھوانی پڑے۔ یہ ہوتا ہے باپ جو اپنی ساری زندگی اولاد کی خواہشات پوری کرنے میں صرف کر دیتا ہے: اور ملال تک نہیں ہوتا۔
بس آخر میں اتنا کہنا چاہوں گی کہ اگر ماں جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ، آج جو نعمت آپ کو میسر ہے اس کی قدر کریں اور خدا کا شکر ادا کریں۔ کل جب وہ نہیں رہے گی تو رونے اور غم کرنے کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا زندگی میں۔ بس ایک بےرنگ زندگی کے سوا!
اللہ پاک سب کے والدین کو ان کے سر پر سلامت رکھے اور ہمیں ان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین !
آج میرے پاس نام، مقام اور عزت سب ہے۔
اے میرے باپ تجھے میرا سلام۔