اسلام دوسرے ادیان کی طرح صرف چند اخلاقی اصولوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔یہ زندگی کے ہر شعبے میں انسانیت کی مکمل راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کے ساتھ ساتھ یہودیت، مسیحیت، ہندومت، میں بھی سودحرام ہے، لیکن اسلام اور ان مذاہب میں فرق یہ ہے کہ اسلام آپ کو ایک پورااقتصادی نظام دیتا ہے کہ کس طرح سود سے پاک معیشت کوحاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ باقی ادیان یہ چیزیں نہیں بتاتے۔ مزیدیہ کہ اسلام نہ صرف نظریاتی طور پر آپ کو ایک نظام دیتا ہے بلکہ عملی طور پر اس نظام کاطریقہ بھی بتاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت قلیل وقت میں ریاست ِمدینہ ایک سپر طاقت بن گئی اور دنیا کے دوسری قوتوں جیسا کہ روم فارس وغیرہ کولپیٹ میں لے لیا۔
اسلامی معاشی نظام کی سب سے پہلی خوبی یہ ہے کہ اسلام انسان کے ضروریات اور خواہشات کے درمیان فرق کرتا ہے۔انسان کی بنیادی ضروریات میں کھانا،کپڑا،رہائش،اور طبی امداد شامل ہے جس کی ذمہ داری اسلامی ریاست پرہوتی ہے۔ جبکہ ضروریات کے علاوہ خواہشات کی ذمہ داری ریاست پر نہیں ہوتی۔ لہٰذااسلام کے مطابق ایک معاشرے کابنیادی معاشی مسئلہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے نہ کہ اشیاء کی کم پیدوار۔اسی لئے اسلامی اقتصادی نظام دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیتا ہے تاکہ ہرشخص کی بنیادی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی مسئلے کوانسانوں کی لامحدودخواہشات کے بڑھنے سے اشیاء کی زیادہ پیداوار پر زور دیتا ہے جوکہ اس مسئلے کا ایک پائیدار حل نہیں۔
اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام نے دنیاکوقومیت کی بنیادپر تقسیم کیاہواہے۔جس کی وجہ سے موجودہ قومی ریاستیں خشک سالی اور غربت کودور کرنے کیلئے دوسری ریاستوں کی مددکرنے کواپنی ذمہ داری نہیں سمجھتیں۔یہی قومی ریاستوں کاتصور دولت کی منصفانہ تقسیم کوروکتاہے۔اس کے برعکس اسلام نے مسلم امت کوایک ریاست کاتصور دیاہے۔خلافت میں موجودہ قومی ریاستوں کی طرح سرحدیں نہیں ہوتیں۔ ریاست میں ہر شخص جہاں چاہے سفرکرسکتاہے اورجہاں چاہے رہائش اختیار کرسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر ریاست کاایک خطہ غربت یاخشک سالی کاشکار ہوتاہے تودوسرے علاقوں کے ہوتے ہوئے ان مسائل کوباآسانی دورکیاجاسکتاہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ریاست کے باشندوں پر مختلف قسم کے ٹیکس لگائے جاتے ہیں جیساکہ آمدنی پر ٹیکس،خریدوفروخت پرٹیکس،روڈٹیکس وغیرہ جس کی ادائیگی کے بعدایک گھرانہ بمشکل اپنی بنیادی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔اسلام میں اس قسم کے ٹیکس کاکوئی تصورنہیں جس سے عوام پر بوجھ پڑتاہے۔البتہ صاحب نصاب مسلمانوں سے سالانہ زکوٰۃ اورغیر مسلموں سے جزیہ وصول کیاجاتا ہے جوضرورت سے زائد دولت پر دیا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ہر قسم کی وسائل کی نجکاری کی اجازت ہے چاہے وہ تیل وگیس کے ذخائر ہوں یاتوانائی پیداکرنے کے وسائل۔یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل کوانفرادی ملکیت میں دے کرملٹی نیشنل کمپنیاں ان قدرتی وسائل وذخائر پر قبضہ کرکے اسی ریاست کے عوام پر گھیراتنگ کردیتی ہیں۔ایک طرف یہ کمپنیاں تیل،گیس،بجلی وٖٖٖغیرہ کوعوام کوانتہائی مہنگے داموں بیچ کرکئی گنازیادہ منافع کماتی ہیں تودوسری طرف ان وسائل کی فراہمی کو تنگ کرکے عوام کابد ترین استحصال کرتی ہیں۔اسلام میں ان جیسے وسائل کی نجکاری نہیں کی جاسکتی اور خلافت اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے عوام کوان کی فراہمی یقینی بناتی ہے۔اور ان کی فراہمی سے حاصل ہونے والاپیسہ بیت المال میں جمع کرکے عوام پر ہی لگایاجاتاہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں لوگ بینکوں میں پیسہ جمع کرکے سود کماتے ہیں جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں کم ہوکر نوکریوں اورکاروبار کے مواقع کافقدان ہوتاہے کیونکہ سرمایہ کچھ شعبوں تک محدود رہتاہے۔اسلام میں سودحرام ہونے کی وجہ سے اسلام دولت کو جمع کرنے کی بجائے اسے معاشی سرگرمیوں میں استعمال کرنے پرزور دیتا ہے جس سے پیسہ گردش میں آتا ہے اورمعیشت ترقی کرتی ہے جس کی وجہ سے نوکریوں اورکاروبار کے مواقع پیداہوتے رہتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں لوگ سود پرقرضے لیتے ہیں تاکہ اپناکاروبار شروع کرسکیں۔یااپنی کمپنی میں مزیدسرمایہ ڈال سکیں۔اسی طرح کمپنی کومزید پھیلانے کی لیے اس کے شیئرز سٹاک مارکیٹ میں فروخت کئے جاتے ہیں۔ جب کسی کمپنی کادیوالیہ ہوتاہے تواس کے مالکان یعنی ہولڈرز اپنا سرمایہ کھو بیٹھتے ہیں۔ البتہ قرض پوراکرنے کیلئے مالکان کی ذاتی دولت استعمال نہیں ہوتی۔ یہ اس لئے کہ لیمیٹڈ لائبلٹی کے ہوتے ہوئے مالکان کی ذاتی دولت سے قرض وصول نہیں کیاجاسکتا اگرچہ ان کے پاس بینکوں میں بلین ڈالر ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ اسلام میں مقروض کوپائی پائی کاحساب دیناہوتاہے اور مرنے کے بعد بھی اس کی ذمہ داری اس کی لواحقین پر یاپھر اسلامی ریاست پرہوتی ہے، اگر اس شخص کی مرنے سے پہلے قرض اداکرنے کی نیت تھی۔
اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں کمپنیز عوامی شیئرز اور سودی قرضوں سے سرمایہ حاصل کرکے زیادہ وسیع ہوجاتی ہیں۔لہٰذاایک عام فرد کاچھوٹے پیمانے پر کارروبار شروع کرنااور پھر بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مقابلے کھڑے ہونا ناممکن ہوتاہے۔بڑی سرمایہ دار کمپنیزان چھوٹی کمپنیوں کو عموماًخرید لیتی ہیں تاکہ کاروبار میں مقابلے کوختم کرسکیں اوراپنی اجارہ داری قائم کرسکیں۔اورپھر ان کمپنیوں کے پراڈکٹس کے مد مقابل کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے من کے مطابق تیار کرکے مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں ملٹی نیشنل کمپنیزکے پاس کچھ ملکوں سے بھی زیادہ دولت ہے۔ ان سرمایہ دار کمپنیز کے پاس بھر پور طاقت ہے جس کے ذریعے لابی استعمال کرکے وہ قوانین پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اس کے برعکس اسلام میں چھوٹی اور درمیانی درجے کی کمپنیز ہوتی ہیں جومارکیٹ میں اعلیٰ مقابلہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ مصنوعات سستے داموں فراہم کرتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اگر ایک شخص ٹیکنالوجی یاجدید عمل دریافت کرتاہے تووہ اس کے لئے محدود مدت کیلئے patentخرید لیتاہے یعنی کہ دوسرا شخص اس طرح کی ٹیکنالوجی یادوسری اشیاء نہیں بیچ سکتا۔ لہٰذا کمپنیز patentکیلئے بھاری رقم اداکرتی ہیں جو بعدازاں ان اشیاء یاٹیکنالوجی کی پیداوار کی قیمت سے بھی کئی گنازیادہ ہوتی ہے۔اس کے برعکس اسلام میں خیالات اورایجادات پر patent کروانے کی اجازت نہیں لہٰذاہر شخص کو اپنے ایجادکردہ ٹیکنالوجی اور فارمولے وغیرہ کوفروخت کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اسلامی اقتصادی نظام کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں جو کہ اس نظام کودنیاکے دوسرے اقتصادی نظاموں سے ممتاز کرتے ہیں۔لہٰذا اس نظام کولاگوکرکے ہمارا ملک بہت کم مدت میں معاشی ترقی کرسکے گا۔اللہ رب العزت سے دعاہے کہ اللہ ہمارے ملک کو غیروں کی غلامی سے بچائے اور ہماراحامی وناصر رہے۔ آمین
0