صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ آٹا بحران گورننس کا مسئلہ تھا،مجموعی طور پر مہنگائی ہے آٹا بحران کے ذمے داروں کی چھٹی ہونی چاہئے،حکومت کو مافیا سے نپٹنے کے لئے ہمت کرنا ہو گی۔ مافیا ہر حکومت میں موجود ہوتے ہیں یہ لوگ حکومت کے ذریعے کام کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بقول دو سال میں 22 لاکھ افراد بے روزگار ہو گئے، یہ تشویش کی بات ہے بجلی اور دیگر چیزوں پر سبسڈیز ختم ہونے کی وجہ سے مہنگائی ہوئی۔حکومت نے اتحادیوں کے ساتھ جو وعدے کئے وہ پورے ہونے چاہئیں،کچھ لو، کچھ دو جمہوریت کی روح ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمینٹ کا کردار بہت بہتر ہو سکتا ہے،مَیں جب بھی آرڈیننس جاری کرتا،کہا جاتا ہے کہ ایوانِ صدر آرڈیننس جاری کرنے کی فیکٹری ہے، جس پر مَیں نے کہا کہ ہاں یہ آرڈیننس فیکٹری اس وقت تک کام کرتی رہے گی، جب تک پارلیمینٹ ذمے داری پوری نہیں کرے گی،مجھے یقین ہے حکومت تمام معاملات کو بخیر و خوبی سنبھال لے گی،انہوں نے اِن خیالات کا اظہار ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا۔
آٹے کا بحران اچانک کیونکر پیدا ہوا اور اس کے ذمے دار کون تھے، اس پر وزیراعظم سے لے کر وزراء اور معاونین خصوصی تک بیان بازی تو بہت ہوئی اور ”مافیا“ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا،یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ”مافیا“ کے خلاف کارروائی ہو گی،لیکن نہ تو کسی مافیا کے چہرے سے پردہ اٹھایا گیا اور نہ ہی کوئی کارروائی ہوئی،فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے چھوٹے موٹے اہلکاروں کو تو مافیا نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اُن کے خلاف چند اقدامات کر کے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ بحران کے ذمے دار تھے، ہو سکتا ہے جب بحران اپنے عروج پر ہو چند ایسے لوگوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لئے ہوں،جو گندم کے اجراء کے کام سے متعلق تھے،لیکن یہ اطلاعات بھی آئیں کہ پنجاب میں 200 ایسی فلور ملوں کو سرکاری نرخ پر پسائی کے لئے گندم جاری کر دی گئی، جو کئی سال سے بند پڑی تھیں۔ ظاہر ہے کہ جن ملوں کے پاس آٹے کی پسائی کا کوئی انتظام ہی نہیں تھا انہوں نے سرکاری نرخ پر خریدی ہوئی گندم آگے ایسے لوگوں کو فروخت کر دی،جن کی فلور ملیں کام کر رہی تھیں،لیکن اُنہیں اُن کی ضرورت کے مطابق گندم نہیں مل رہی تھی یا سرے سے ہی نہیں مل رہی تھی،انہوں نے مہنگی گندم خرید کر جو آٹا مارکیٹ میں سپلائی کیا ظاہر ہے وہ مارکیٹ میکنزم کے تحت مہنگے نرخوں پر ہی فروخت ہونا تھا، اگر حکومت ایسے ہی لوگوں کو مافیا کہتی ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ کام تو سرکاری سرپرستی کے بغیر ہو نہیں سکتا، تو کیا مافیا سرکار دربار میں موجود ہے؟ سرکاری گوداموں سے گندم کا اجرا سرکاری اہلکار ہی کرتے ہیں،اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ کون سی مل کتنی گندم پیس کر آٹا بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور کون سی مل بند پڑی ہے۔ ظاہر ہے اگر ان لوگوں نے بند ملوں کو گندم سپلائی کی تو اسے سرکاری سرپرستی تو حاصل ہو گی اور اس کا فائدہ کسی گروہ نے ہی اٹھایا ہو گا،اِسی طرح جب ملک میں گندم اور آٹے کے بحران کے بارے میں پہلے سے خبردار کر دیا گیا تھا تو ایسے موقع پر گندم برآمد (ایکسپورٹ) کرنے کی اجازت کس نے دی؟ظاہر ہے اگر یہ گندم ایکسپورٹ کی گئی، تو اعلیٰ سطح پر اس کی منظوری دی گئی ہو گی جب یہ گندم سستے داموں باہر بھیج دی گئی تو پھر ایمرجنسی میں مہنگے داموں گندم درآمد(امپورٹ) کرنے کا سوچا گیا،گویا پہلے گندم باہر بھیج کر کمائی کی گئی اور پھر درآمد کر کے اس عمل کو دہرایا گیا، حکومت تو چینی بھی برآمد کرنا چاہتی تھی یہ اچھا ہوا کہ وزیراعظم نے چینی کی برآمد بھی روک دی،اور درآمد کرنے سے بھی انکار کر دیا، ان حالات میں شوگر کنگ جہانگیر ترین کا مشورہ ہے کہ اگر چینی کی قیمتیں کم رکھنی ہیں تو چینی درآمد کرنا ہو گی،معلوم نہیں حکومت اپنے اس ”مشیر اعلیٰ“ کا مشورہ قبول کرتی ہے یا نہیں،لیکن نظر آتا ہے کہ مافیا آٹے کی طرح چینی کا بحران پیدا کرنے پر بھی تُلا ہوا ہے۔اب تک آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں میں سے کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔اب صدرِ مملکت کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ یہ بحران گورننس کا بھی نتیجہ تھا گویا بہتر انتظامی اقدامات سے اس بحران کو ٹالا جا سکتا تھا اس لئے معلوم کرنا چاہئے کہ آٹے کے بحران میں کس کا کتنا قصور ہے؟ وزیراعظم کی مشیر اطلاعات نے یہ تو کہہ دیا کہ مافیا نے پراپرٹی سے پیسہ نکال کر آٹا اور چینی ذخیرہ کرنے پر یہ ”کالا دھن“ لگا دیا،لیکن یہ نہیں بتایا کہ حکومت اس صورتِ حال میں کیا کر رہی ہے، اور جنہوں نے ذخیرہ کیا ہے ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، کیا خالی خولی مذمتی بیانات سے صورتِ حال کی اصلاح ہو جائے گی؟
صدرِ مملکت نے بالکل درست کہا ہے کہ اگر پارلیمینٹ اپنی ذمے داری پوری کرے تو صدر کی ”آرڈیننس فیکٹری“ کو آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔صدر کی یہ بات جزوی طور پر درست اور قابل ِ قبول ہے دیکھا یہی گیا ہے کہ حکومت بعض بلوں کو قومی اسمبلی یا سینیٹ میں لانے کی بجائے انتظار کرتی رہتی ہے کہ اجلاس ملتوی ہوں تو آرڈیننس جاری کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ بعض آرڈی ننسوں کے اجرا اور قومی اسمبلی سے عجلت میں منظوری پر اپوزیشن نے ہنگامہ کھڑا کر دیا،جس پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی، تب حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کر کے آرڈیننس واپس لینے پڑے اور اپوزیشن نے اپنی تحریک واپس لے لی،حالانکہ اگر پہلے ہی ناخن تدبر سے کام لیا جاتا تو اس کی نوبت ہی نہ آتی، حکومت اگر پارلیمینٹ کی کارروائی اپوزیشن کے ساتھ مل کر چلائے تو پھر آرڈی ننسوں کے اجرا کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ ایسے بہت سے معاملات عدالتوں میں بھی چلے جاتے ہیں،جو بنیادی طور پر پارلیمینٹ کی ذمے داری ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے کئی مقدمات میں اعلیٰ عدالتوں نے احکامات جاری کئے کہ یہ مسئلہ پارلیمینٹ حل کرے اور پھر ایسا ہو بھی گیا،اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمینٹ اگر چاہے تو عدالتوں کی مداخلت کے بغیر پہلے ہی اپنی ذمے داریاں ادا کر سکتی ہے۔صدرِ مملکت نے بھی پارلیمینٹ کو بالواسطہ طور پر یہی مشورہ دیا ہے کہ وہ قانون سازی کا کام تسلی بخش طور پر کرے تو اسے شکوہ نہ ہو کہ حکومت آرڈی ننسوں کا سہارا لے رہی ہے۔صدرِ مملکت نے اپنے انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، حکومت اور پارلیمینٹ کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔