0

آخر گزر ہی جائے گی حیات ::‌ تحریر: وجیہہ ظفر

آج ٹھیک ایک ماہ بعد کچھ ضروری خریداری کے لیے گھر سے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے تمام ضروری اشیاء کی ایک لسٹ تیار کرنا شروع کر دی ۔ خوبصورت موسم اور کانوں میں رس گھولتی محمد رفیع کی آواز ہوا میں موجود سناٹے کو مزید گہرا کرنے میں مصروف تھے۔ عجیب ویرانی اور وحشت مجھے میرے وجود میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔ یہ گلیاں،یہ بازار انجانے نہیں تھے مگر آج لگ رہے تھے۔ کسی بیوہ کی اجڑی زلفوں کا منظر پیش کرتے ، کسی خوفناک خواب کی طرح ۔ اچانک گزشتہ سال کا خوبصورت منظر میری آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگا۔
اس شہر کی رونقیں اور ان بازاروں میں عید کی خریداری کرنے میں مصروف انسانوں کا ہجوم ، خوبصورت روشنیوں سے منور یہ خوبصورت شہر آج کس قدر ویران لگ رہا ہے ۔کچھ ہی عرصے میں منظرنامہ یوں خوفناک سناٹے میں بدل جائے گا کسی کے وہم و گمان میں نہ ہوگا ۔ وقت ، حالات ، اور خیالات کس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔یہ صرف میرے شہر کا ہی مسئلہ نہیں، پوری دنیا اس وقت کسی ہالی وڈ کی ہارر موی کا منظر پیش کر رہی ہے ۔
زندگی کس قدر مشکل ہو گئی ہے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔ ایک انجانا سا ان دیکھا سا ایک خوف ہے جس نے تمام انسانوں کو بغیر کسی تفریق کے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کسی کو بھوک نے خوف میں مبتلا کر رکھا ہے اور کسی کو اس ان دیکھے وائرس نے بس موت ہے جو مختلف شکلوں میں انسان کو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ وہ موت جسے ہم نظر انداز کر چکے تھے ۔ثابت ہوتا ہے کہ زندگی ایک جلتا ہوا چراغ ہے جسے بجھانے کے لیے ہوا کا معمولی جھونکا ہی کافی ہے ۔ آخر زمین بھی کب تک ہمارے بھاری قدموں کا بوجھ برداشت کرتی ؟ ہم جو مسلسل فیکٹریوں کی آلودگی اور گندگی کا خنجر اس کے پیٹ میں اتار رہے تھے۔ بالآخر حضرتِ زمین ہمارے دیے ہوئے زخموں کی تاب نہ لا سکیں۔ یعنی کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔تو کیوں نہ انتظار کیا جائے اور احتیاط کی جائے اور بحیثیت انسان غوروفکر کی جائے ۔شاید کہ ہم زمین کو پھر سے رہنے کے قابل جگہ بنا سکیں اور ایک بہتر انسان بن سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں